اُبھرتا ستارہ اچانک غروب علمی خانوادہ کا چشم و چراغ مولانا غلام احمد افروز کا انتقال داغِ فرقت دیکر احساس ذمہ داری جگادیا

   

کوششوں کے جو نتیجے تھے اُسے مل نہ سکے
ہائے وہ پھول کے پھولے تھے مگر کھل نہ سکے
ہمارے اسلاف حقیقت میں علم و عمل ، تقویٰ و پرہیزگاری ، اخلاق و کردار کی بلندی اور قلب و نگاہ کی پاکیزگی میں اپنے بزرگوں کے سچے جانشین تھے ۔ جن پر علماء ربانین کا اطلاق ہوتا کہ وہ حقیقت میں انبیاء کرام کے وارث و جانشین تھے ۔ دیکھتے دیکھتے ایک ایک کرکے تقریباً سبھی اس دنیا سے رُخصت ہوگئے ۔ آیت کریمہ ’’کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو اس کے اطراف سے تنگ کرتے ہیں ‘‘ ( سورۃ الرعد :۴۱) کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ زمین کی کمی و بربادی فقہاء ، علماء اور اہل خیر کے انتقال سے ہوتی ہے۔ اور حضرت مجاہد نے فرمایا : زمین کی کمی علماء کی موت سے ہوتی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)
لعمرك ما الرزية فقد مال
ولا شاة تموت ولا بعيـر
ولكن الرزية فقـد شھم
يموت بموته خلق كثيـر
ترجمہ : قسم ہے تیری زندگی کی ! نقصان مال کے ضائع ہونے کا نہیں ، نہ بکری یا اونٹ کے مرنے کا بلکہ حقیقی نقصان تو صاحب بصیرت عالم دین کے انتقال کا ہے جس کی موت سے خلق کثیر مرجاتی ہے ۔
خاکسار نے اپنے شیوخ ، اکابر علماء اور بزرگوں کی تعزیت میں مضامین لکھے ہیں اُن کی جدائی کے صدمہ کا کوئی مداوا نہیں ، آخری سانس تک وہ دل میں تازہ رہے گا لیکن آج نہ جانے کیوں بڑی مشکل سے قلم کو جنبش دینے کی ہمت کرتا ہوں تو جذبات غالب آجاتے ہیں اور غفلت و لاپرواہی سے سوکھی آنکھوں میں آنسو ٹمٹانے لگتے ہیں کیونکہ اس جدائی کا درد عام جدائی کا درد نہیں ہے بلکہ ایک ایسے نوجوان عالم دین کی جدائی کا غم ہے جس نے اپنے سینے میں بچپن ہی سے اپنے خاندان کے بزرگوں اور جامعہ نظامیہ کے اکابر شیوخ کے نقشِ قدم پر چلنے کا جنون پال رکھا تھا اور عمر کے ساتھ ساتھ اس کے جنون میں اور اضافہ ہوتا گیا۔ ایسے وقت جبکہ دینی مدارس و جامعات کے طلباء اپنے بزرگ علماء کی صحبتوں سے دور سوشل میڈیا اور اسمارٹ فونس پر زیادہ مشغول ہیں اور نوجوان علماء ذوقِ مطالعہ سے محظوظ ہونے اور کتب خانہ کی پرسکون چار دیواری میں اپنی علمی و فکری آبیاری پر توجہہ مرکوز کرنے سے زیادہ جلسے اور عوامی مجالس کو ترجیح دے رہے ہیں ایسے ماحول میں مولانا حافظ و قاری غلام احمد افروز ولد شفیق احمد ( ولادت ۲۰؍ فبروری ۱۹۹۰؁ء ۔ وفات ۲۱؍ اگسٹ ۲۰۲۵؁ ء ) جیسے صحبت یافتہ ، کتبخانہ کے غمگسار ، کتابوں کے ہمنشین ، نام و نمود سے دور ، عوامی محفل سے لاتعلق قابل و مشفق استاد گرامی کا انتقال کرجانا عمومی طورپر نظامی برادری کے لئے بطور خاص طلباء کیلئے عظیم نقصان ہے ۔
مولانا حافظ غلام احمد افروز مرحوم علمی و فقہی گھرانے کے رُکن رکین تھے ۔ آپ کے جد امجد حضرت مولانا غلام احمد ؒبلند پایہ عالم دین اور جامعہ نظامیہ کے شیخ المعقولات رہے ۔ آپ کی تعلیم و تربیت از ابتداء تا انتہاء جامعہ نظامیہ میں ہوئی اور ۱۹۴۵؁ ء میں بحیثیت استاذ تقرر کے بعد بھی جامعہ نظامیہ کے دارالاقامہ کے ایک کمرہ میں منتقل ہوگئے ۔ ۱۹۷۰؁ء میں شیخ المعقولات کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہوئے اس کے باوصف جامعہ نظامیہ سے جدائی کو گوراہ نہ کیا ۔ تقریباً ۳۷ سال جامعہ نظامیہ کے اقامت خانہ میں مقیم رہے ۔ آپ کی منجملہ خوبیوں میں اس حد تک جامعہ نظامیہ سے وابستگی کی مثال نہیں ملتی اور جامعہ نظامیہ سے وابستگی اس خانوادہ میں منتقل ہوتی گئی ۔ مرحوم کے تایا مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی خلیل احمد مدظلہ العالی امیر جامعہ نظامیہ ہیں ۔ آپ کی ساری زندگی جامعہ نظامیہ کے استحکام اور ترقی کے لئے وقف رہی ۔ نیز آپ نے جامعہ نظامیہ کی حفاظت اس طرح سرانجام دی ہے جس طرح مرد مجاہد سرحد پر حفاظت کرتا ہے۔
۹ دہوں سے جاری اس خانوادہ کی جامعہ نظامیہ سے اٹوٹ و انوکھی وابستگی تمام وابستگانِ کے لئے ایک عظیم نمونہ ہے اور اس وابستگی کا حظہ وافر وراثۃً مرحوم مولانا غلام احمد افروز کو منتقل ہوا ۔ چنانچہ ۲۰ فبروری ۱۹۹۰؁ ء کو اُن کی ولادت ہوئی ۔ دادی جان نے نومولود کا نام جد امجد کے نام پر غلام احمد رکھا تو تایا جان مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی خلیل احمد امیر جامعہ نے عرفیت ’’افروز ‘‘ رکھی ۔ مرحوم نے خود والد گرامی محترم شفیق احمد حفظہ اللہ سے حفظ قرآن کا ارادہ ظاہر کیا ۔ چنانچہ تین سال کے عرصے میں مدرسہ تحفیظ القرآن تاڑبن میں حفظ کی تکمیل کی ۔ ۲۵ سے زائد دور کئے اور بعد تکمیل تین پارے تراویح میں سنانے کی سعادت حاصل کی ۔ بعد ازاں جماعت پنجم میں داخلہ لیا اور بارہ سال جامعہ نظامیہ میں زیرتعلیم رہے اور اجلہ شیوخ سے بھرپور استفادہ کیا ۔ حدیث شریف سے کامل کیا اور اعلیٰ نمبرات کی بناء گولڈ میڈل کے حقدار ہوئے ۔ فراغت کے بعد اپنی علمی مصروفیات کو جاری رکھا بطور خاص حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین رحمۃ اللہ علیہ سابق مفتی جامعہ نظامیہ کی صحبت میں رہے۔ بلا ناغہ حضرت کی خدمت میں حاضر رہے ۔ مرحوم کے جد امجد حضرت مفتی صاحب قبلہ مرحوم کے استاذ گرامی رہے اس تعلق کی بناء حضرت مفتی محمد عظیم الدین ؒ ، مرحوم پر خصوصی نظرعنایت فرماتے ۔ مرحوم کی علمی جستجو کی بناء حضرت مفتی صاحب علمی کاموں میں شریک رکھتے اور بہت جلد مسائل کے استنباط اور حوالہ جات کے استخراج کا ملکہ حاصل ہوگیا اور فقہی بصیرت پیدا ہوگئی ۔ بعد ازاں جامعہ نظامیہ میں بحیثیت استاذ تقرر عمل میں آیا ۔ اس طرح اُن کے خواب کی تعبیر ظاہر ہوئی ۔ انھوں نے ابتداء سے جامعہ نظامیہ کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا حتی کہ یونیورسٹی کے امتحانات کی طرف توجہ نہیں کی ۔ صرف اور صرف جامعہ نظامیہ میں تدریسی خدمات کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا اور وہ پورا ہوا اور بہت جلد اپنی تدریسی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور نائب شیخ الفقہ کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہوئے اور انتہائی جانفشانی اور مکمل دیانت سے تدریسی فریضہ کو سرانجام دیا ۔
مرحوم ہمیشہ علمی مشغلہ میں منہمک رہے ۔ اونچ نیچ کی سیاست سے دور رہے ، کبھی بُرائی کی کوئی بات نہیں کی ۔ وہ نہ صرف اپنے جد امجد اور تایا جان کے علوم کے وارث ثابت ہورہے تھے بلکہ وہ جامعہ کی علمی روایات فقہی مزاج اور اعتدالی فکر کے امین و پاسبان ظاہر ہورہے تھے ۔ وہ مسلکی رواداری کے ساتھ مسلکی تصلب اور مکتبی تشخص کے پرزور حامی تھے ۔ اہلسنت والجماعت کے عقائد و نظریات و افکار و معمولات کی ترویج و اشاعت کے پرستار تھے ۔ اُن کا سینہ عشقِ رسولؐ سے موجزن تھا حتی کہ اُن کی طالب علمی کے دوران جب ڈنمارک سے فرضی خاکے شائع ہوئے تو احتجاج میں عملی طورپر حصہ لیا جو اُن کے ایمانی غیرت کی غماز ہے ۔ وہ آئمہ ، اہلبیت اطہار سے بے پناہ محبت رکھتے ۔ حضرت پیرانِ پیر قدس سرہ العزیز سے حد درجہ عقیدت تھی ۔ سلسلہ عالیہ قادریہ میں ارادت کااشتیاق رہا ۔ تایا جان مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی خلیل احمد مدظلہ العالی کے عاشق تھے ۔ بے پناہ محبت رکھتے تھے بلکہ ’’ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے ‘‘ کے بمصداق ارادت کے جذبات رکھتے لیکن یہ عاشق زار کبھی اپنے تایا سے اپنی بے پناہ محبت عشق اور وابستگی کا اظہار کر نہ سکا ۔ بالآخر جب وہ بیمار ہوئے تو اپنے محبوب تایا جان کے گھر میں رہے اور جب آخری وقت آیا تو اس عاشق زار کی مراد پوری ہوئی اور اس پروانہ نے اپنے تایا کی گود میں اپنے ہاتھ کو آپ کے ہاتھ میں دیکر اپنی آخری نگاہ ڈالی اور قربان ہوگیا اور اپنے بزرگوں سے ملنے میں ہم پر سبقت لے گیا ، جدائی کا بہت گہرا زخم چھوڑ گیا جو بار بار احساس ذمہ داری کا ہاد دہانی کرا رہا ہے ۔ ’’بے شک اﷲ ہی کا ہے جو اُس نے لیا اور اُسی کا ہے جو اُس نے عطا کیا اور ہرچیز اُس کے ہاں مقررہ وقت کے مطابق ہے۔ اﷲ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے اور اس خانوادہ کو نعم البدل عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ طہٰ و یٰسین