اُردو صحافت کے 200 سال مغربی بنگال اُردو اکیڈمی کا یادگار جشن

   

رپورتاژ

محمد ریاض احمد
مغربی بنگال ہر لحاظ سے انقلابی سرزمین ثابت ہوئی ہے۔ ملک کی آزادی سے قبل اس سرزمین پر آزادی کے متوالوں نے انگریز سامراج کے خلاف بے شمار تحریکیں چلائی۔ یہاں تک کہ انڈین نیشنل کانگریس کے قیام کی کوششوں کا آغاز بھی مغربی بنگال سے ہوا۔ جب یکم مارچ 1883ء کو ایلن اکٹاوین ہیوم نے یونیورسٹی آف کلکتہ کے گریجویٹس کے نام ایک مکتوب لکھتے ہوئے انہیں تحریک آزادی کیلئے انڈین نیشنل کانگریس کے قیام کی اہمیت سے واقف کروایا اور ترغیب دی۔ مغربی بنگال صرف تحریک آزادی اور انقلابی تحریکوں کیلئے ہی شہرت نہیں رکھتی بلکہ مختلف زبانوں بالخصوص اُردو زبان رادب اور اُردو صحافت کے فروغ میں بھی مغربی بنگال کا اہم کردار رہا۔ اسی سرزمین سے اُردو صحافت کا آغاز ہوا اور ’’جام جہاں نما‘‘ کی شکل میں 22 مارچ 1822ء کو اُردو کے پہلے اخبار کی اشاعت عمل میں آئی۔ اس طرح جاریہ سال 22 مارچ کو نہ صرف اُردو صحافت بلکہ جام جہاں نما کی اشاعت کے 200 سال مکمل ہوئے۔ اگرچہ جام جہاں نما تاریخ کا ایک حصہ ایک تذکرہ بن کر رہ گیا ہے لیکن اُردو صحافت اپنی عمر کی دو صدیاں مکمل کرنے کے باوجود پوری آب و تاب سے اپنی بقاء کو یقینی بنائے ہوئے ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان 200 برسوں میں اُردو صحافت کو کئی ایک نشیب و فراز سے گذرنا پڑا۔ نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی توپوں کے منہ پر رکھ کر اسے اُڑا دیا گیا۔ (شہید صحافت مولوی محمد باقر کی شہادت) تو کبھی اس کے جسم میں گولیاں اُتار دی گئیں (شعیب اللہ خاں کی موت) یا پھر سزائے موت کے ذریعہ اسے قتل کیا گیا( مرزا بیدار بخت کی انگریزوں کے ہاتھوں موت) بہرحال اُردو صحافت کے 200 سال کی تکمیل کا جشن سارے ملک میں منایا جارہا ہے اور خاص طور پر روزنامہ سیاست نے بھی اُردو صحافت کے 200 سال اور روزنامہ سیاست کے 75 سال کے دو سالہ جشن منانے کا اعلان کیا ہے اور اس کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ ایسے میں مغربی بنگال اُردو اکیڈیمی محکمہ اقلیتی اُمور و مدرسہ تعلیم حکومت مغربی بنگال نے اُردو صحافت کی دو صدیاں کے زیرعنوان 24 تا 26 مئی سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کا اہتمام کیا۔ ساتھ ہی جشن جام جہاں نما بھی منایا۔ جشن جام جہاں نما کے پرمسرت موقع پر قومی مشاعرہ کا انعقاد عمل میں لایا گیا جو انتہائی کامیاب رہا۔ سہ روزہ سمینار کے دوران جہاں جشن جہاں نما اور قومی مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا، وہیں 26 مئی 2022ء کو شام 4:30 بجے تقریب جام جہاں نما ایوارڈ کا انعقاد عمل میں آیا جس میں اُردو صحافت کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کرنے والی شخصیتوں کو ان کی صحافتی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے باوقار ایوارڈس دیئے گئے۔ روزنامہ سیاست کو سارے ہندوستان ہی نہیں بلکہ برصغیر اور دنیا بھر کے اُردو اخبارات میں اپنے اعلیٰ معیار اور معیاری صحافت و عوامی خدمات کے باعث ایک ممتاز مقام حاصل ہے چنانچہ جناب زاہد علی خاں ایڈیٹر روزنامہ سیاست کو ایوارڈ پیش کیا گیا جسے ان کے فرزند دِلبند اور نیوز ایڈیٹر سیاست و سی ای او ٹی وی جناب عامر علی خاں نے حاصل کیا۔ جن دیگر شخصیتوں کو ایوارڈس عطا کئے گئے۔ ان میں جناب واجئے کمار جی چوپڑا ، جناب احمد سعید ملیح آبادی، جناب معصوم مرادآبادی، جناب یوسین گپتا، جناب تمل ساہا، جناب وشومبر نیور، جناب محمد وسیم الحق، جناب بچن سنگھ سرل، جناب پرویز حفیظ، جناب ایس ایم اشرف فرید ، جناب رشید مخدومی، جناب عارف عزیز ، جناب شاہد لطیف اور جناب شاہد صدیقی جیسی شخصیتیں شامل ہیں۔ جشن جام جہاں نما کے پرمسرت موقع پر قومی مشاعرہ کا کلامندر تھیٹر روڈ کولکتہ میں اہتمام کیا گیا۔ پروفیسر وسیم بریلوی کی صدارت میں منعقدہ اس مشاعرہ میں کلا مندر عوام سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مشاعرہ گاہ میں معزز مہمانان اور اہم شخصیتوں کو بھی داخل ہونے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لتا حیا، پروفیسر شھپر رسول، معین شاداب، شبینہ ادیب، حسن کاظمی، جناب اقبال اشہر، نسیم نکہت، خالق ادیب اور حلیم صابر نے کلام سنایا۔ موضوعاتی کلام پر شعراء کو زبردست داد ملی۔ 24 تا 26 مئی کے دوران چار اجلاس منعقد کئے گئے اور ہر اجلاس میں قابل مقالہ نگاروں نے اُردو صحافت کے آغاز سے لے کر موجودہ دور میں اسے درپیش چیلنجز کے بارے میں انتہائی معلوماتی مقالہ جات پیش کئے۔ پہلا اجلاس پروفیسر شافع قدوائی علی گڑھ کی صدارت میں 24 مئی کو شام 4 بجے منعقد ہوا جس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر دبیر احمد نے بخوبی انجام دیئے۔ پروفیسر احتشام احمد خاں حیدرآباد، ڈاکٹر محمد شکیل اختر دہلی، ڈاکٹر اسد فیصل فاروقی علیگڑھ، جناب ایم آئی طاہر راجستھان، جناب محمد امان اللہ کولکتہ، جناب اشہر ہاشمی بردوان، جناب محمد شکیل خاں کولکتہ نے مقالے پیش کئے۔ ڈاکٹر غلام سرور نے ہدیہ تشکر پیش کیا۔ دوسرا اجلاس 25 مئی 2022ء کو صبح 10 بجے منعقد کیا گیا جس کی صدارت شری جوہر سرکار رکن راجیہ سبھا نے کی اور اس میں 6 مقالے نگاروں نے مقالے پیش کئے جن میں جناب وویک گپتا ایم ایل اے، جناب احمد حسن عمران کولکتہ، شری پردیپ گپتیو کولکتہ، شری جینتور گھوشال کولکتہ، شری ہرادھن بھٹا چاریہ کولکتہ، ڈاکٹر غزالہ ہاشمی کولکتہ شامل تھے۔ ڈاکٹر نوشاد عالم نے شکریہ ادا کیا۔ تیسرا اجلاس 25 مئی 2022ء کو بوقت دوپہر 2 بجے جناب شاہد لطیف ممبئی کی صدارت اور ڈاکٹر دبیر احمد کی نظامت میں منعقد ہوا۔ جناب جاوید دانش کینیڈا، جناب سہیل انجم دہلی، جناب عامر علی خاں نیوز ایڈیٹر سیاست، جناب سوبھوجیت باگچی کولکتہ، جناب فرحاں علی دہلی، جناب سرفراز آرزو ممبئی اور جناب جاوید انور بنارس نے مقالے پیش کئے۔ جناب عامر علی خاں نے اپنے مقالے میں جام جہاں نما کے آغاز (اُردو صحافت کے آغاز) سے لے کر موجودہ دور میں اُردو صحافت کا جائزہ لیا اور خاص طور پر آزادی سے قبل کی۔ اُردو صحافت کے بارے میں بیش بہا معلومات فراہم کی۔ چوتھا اجلاس 26 مئی کو صبح 10 بجے جناب عارف عزیز بھوپال کی صدارت میں منعقد ہوا۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر دبیر احمد نے انجام دیئے جبکہ پرویز حفیظ کولکتہ، معصوم مرادآبادی دہلی، ریاض ملک کشمیر، جناب عبدالسلام عاصم دہلی، اشرف فرید پٹنہ، جناب اسد مرزا دہلی نے مقالے پیش کئے۔ ڈاکٹر امتیاز وحید نے شکریہ ادا کیا۔ 24 مئی کو اُردو صحافت کے 200 سال اور جشن جام جہاں نما کا سہ پہر 3 بجے افتتاحی اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت جناب محمد ندیم الحق (ایم پی) وائس چیرمین مغربی بنگال اُردو اکیڈیمی نے کی۔ پروفیسر اخترالواسع دہلی نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔ جناب محمد غلام ربانی عزت مآب وزیر اقلیتی اُمور مدرسہ تعلیم حکومت مغربی بنگال مہمان اعزازی تھے۔ جناب محمد غلام علی انصاری آئی اے ایس سیکریٹری ایم اینڈ ایم ای ڈپارٹمنٹ حکومت مغربی بنگال، جناب عامر علی خاں نیوز ایڈیٹر سیاست، جناب شاہد لطیف ممبئی اور جناب سہیل انجم دہلی نے بحیثیت مہمانان خصوصی شرکت کی۔ جناب سید محمد شہاب الدین حیدر چیرمین فنکشن سب کمیٹی نے خیرمقدمی کلمات ادا کئے۔ ڈاکٹر دبیر احمد کی نظامت رہی اور جناب نسیم عزیزی نے ہدیہ تشکر پیش کیا۔ اُردو صحافت کی دو صدیاں کے زیرعنوان اجلاس سے خطاب میں وزیر اقلیتی اُمور مدرسہ تعلیم حکومت مغربی بنگال مہمان اعزازی جناب محمد غلام ربانی تھے۔ ’’اُردو صحافت کی دو صدیاں‘‘ کے زیرعنوان سیمینار میں خطاب سے پروفیسر شافع قدوائی، پروفیسر اخترالواسع، جناب ندیم الحق اور مغربی بنگال کے وزیر اقلیتی امور غلام ربانی نے پرزور انداز میں کہا کہ اُردو اپنی ابتدائی دور سے ہی کئی چیلنجس کا سامنا کرتی رہی لیکن ہر مشکل گھڑی میں وہ کامیاب رہی۔ اُردو اور اُردو صحافت کیلئے مشکل ادوار آئے بھی اور گئے بھی۔ فی الوقت جس مشکل دور سے اُردو گذر رہی ہے وہ دور گذر جائے گا اور اردو تھی، ہے اور باقی رہے گی اور ایک بات جو اِن دانشوروں نے کہی، وہ یہ تھی کہ اُردو زبان اور صحافت کی ترقی سرکاری اعانت کی کبھی محتاج نہیں رہی۔ جناب ندیم الحق کا کہنا تھا کہ راجہ رام موہن رائے نے فارسی اخبار کے ذریعہ ملک سے ستی جیسی لعنت کا خاتمہ کیا۔ پروفیسر اخترالواسع نے اُردو، اہل اُردو اور اُردو صحافت کو مشورہ دیا کہ ہمیں خدا اعتمادی اور خوداعتمادی رکھنی ہوگی تبھی ہم ہر مصیبت کا بہ آسانی مقابلہ کرسکیں گے ۔ مغربی بنگال کے وزیر اقلیتی اُمور غلام ربانی نے اُردو اور بالی ووڈ کے تعلق پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج بالی ووڈ ترقی کے جس مقام پر کھڑی ہے، وہ اُردو کی مرہون منت ہے۔ نیوز ایڈیٹر سیاست جناب عامر علی خاں نے اپنے فکرانگیز خطاب میں کہا کہ ہم اُردو صحافت کے 200 سال کی بات کررہے ہیں۔ بے شک اُردو صحافت نے سارے برصغیر میں انقلاب برپا کیا اور متحدہ ہندوستان کو انگریزی سامراج کی غلامی کے شکنجے سے آزاد کروانے میں غیرمعمولی کردار ادا کیا، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ اُردو اخبارات کیا کرسکتے ہیں، اس سلسلے میں انہوں نے روزنامہ سیاست کی مثال دی اور کہا کہ روزنامہ سیاست نے صحافت کے ذریعہ خاص طور پر اقلیتوں میں تعلیمی، سیاسی اور معاشی شعور بیدار کرنے کا کام کیا ہے۔ گجرات فسادات میں سیاست ملت فنڈ کی جانب سے 2,000 متاثرین کیلئے مکانات تعمیر کروائے گئے۔ ممبئی فسادات میں کروڑہا روپئے کی امداد اور ادویات روانہ کی گئیں۔ مظفرنگر فسادات (یوپی) ، دہلی فسادات سے لے کر بہار اور کشمیر کے سیلاب میں بھی سیاست کی خدمات غیرمعمولی رہیں۔ روزنامہ سیاست کے ذریعہ تقریباً 50 بہبودی اسکیمات چلائی جاتی ہیں جن میں اُردو دانی سے لے کر پولیس ، فوج اور سرکاری ملازمتوں میں بھرتیوں کیلئے تربیت کی فراہمی بھی شامل ہے۔ سیاست کی کوششوں کے نتیجہ میں 1100 سے زائد نوجوانوں کو پولیس میں ملازمتیں حاصل ہوئیں۔ لاکھوں نونہالانِ ملت کو ملت فنڈ کی جانب سے اسکالرشپس دی گئی۔ ساتھ ہی پوسٹ اور پری میٹرک اسکالرشپ کے علاوہ چیف منسٹر اوورسیز اسکالرشپ اسکیم سے بھی اقلیتوں کو استفادہ کروایا جاتا ہے، ان کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ آئی ٹی سیکٹر میں بچوں کو تربیت دے کر ملازمتوں کے قابل بنایا جاتا ہے۔ سیاست ملت فنڈ کے ذریعہ لاوارث مسلم نعشوں کی تجہیز و تدفین بھی کی جاتی ہے۔ ملت کو بیجا رسومات سے بچانے کیلئے روزنامہ سیاست نے اپنے ایڈیٹر جناب زاہد علی خاں کی قیادت میں شادیوں کا ’’دوبدو‘‘ پروگرام شروع کیا اور اب تک تقریباً 125 دوبدو پروگرام میں کا انعقاد میں عمل میں آچکا ہے اور 7 تا 8 ہزار شادیاں انجام پائیں۔ جناب عامر علی خاں کے ان انکشافات پر حاضرین حیران رہ گئے کہ کیا کوئی اُردو اخبار اس طرح کی خدمات بھی انجام دے سکتا ہے۔ بہرحال مغربی بنگال اُردو اکیڈیمی اور اس کے ذمہ دار ان قابل مبارکباد ہیں کہ اُن لوگوں نے سرکاری سطح پر اُردو صحافت کی دو صدیوں کا بڑے پیمانے پر جشن منایا۔ یہ جشن یقینا اُردو صحافت کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔