اُستاد غلام حسین خاں مرحوم

   

اپرنا کانڈا
مرحوم استاد غلام حسین خاں ملک کے ایک ممتاز کلاسیکی گلوکار تھے۔ ان کا شمار ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی افسانوی شخصیتوں میں ہوتا ہے۔ وہ پدم بھوشن استاد مشتاق حسین خاں (پدم بھوشن اور سنگیت ناٹک اکیڈیمی ایوارڈ حاصل کرنے والے پہلے ہندوستانی کلاسیکی گلوکار تھے، 1957ء میں حکومت ہند نے ان کو ملک کے تیسرے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن سے نوازا تھا) کے فرزند تھے۔ استاد غلام حسین خاں کا تعلق کلاسیکی موسیقی کے مشہور رامپور ساہسوان گھرانہ سے تھا جو میاں تان سین جیسی موسیقی کی عظیم شخصیت سے بڑا ہوا ہے۔
استاد غلام حسین خاں کی پیدائش 15 اگست 1936ء کو اُترپردیش کے رامپور میں ہوئی اور انہوں نے بہت ہی کم عمری سے ہی فن موسیقی کی تربیت حاصل کرنی شروع کی۔ ان کی خوش قسمتی یہ تھی کہ انہوں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جو میاں تان سین کی روایات کو آگے بڑھانے میں پیش پیش تھا۔ انہیں اپنے والد اور کلاسیکی گلوکاری کے کرتا دھرتاؤں میں سے ایک استاد مشتاق حسین کی غیرمعمولی سرپرستی حاصل رہی۔ اور تقریباً 20 برسوں تک استاد غلام حسین خاں نے اپنے والد کی نگرانی میں سخت محنت کی اور مسلسل ریاض کرتے رہے۔ 1964ء میں جب ان کے والد کا انتقال ہوا، اس کے بعد انہیں اپنے بڑے بھائی استاد اشتیاق حسین خاں کی سرپرستی حاصل رہی۔ وہ بھی ایک افسانوی گلوکار تھے۔ ان کی نگرانی میں بھی استاد غلام حسین نے تربیت پائی اور کلاسیکی موسیقی کے فن میں غیرمعمولی مہارت حاصل کی۔ انہوں نے نہ صرف ’’خیال‘‘ میں مہارت حاصل کی بلکہ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی اور لائٹ کلاسیکل میوزک جیسے ترانہ، سدرا، دودرا، ٹھمری، غزل، سوز وغیرہ میں یکتا ہوئے استاد غلام حسین خاں نے کئی فلموں ، ٹی وی سیرئیلوں، دستاویزی فلموں وغیرہ میں نہ صرف موسیقی دی بلکہ موسیقی کی ہدایت بھی دی۔
رامپور، ساہسوانہ گھرانے کے سرفہرست مشعل برداروں میں سے ایک ہونے کی حیثیت سے استاد غلام حسین خاں نے 60 برسوں سے زائد عرصہ تک فن موسیقی کی خدمت بجالائی اور ملک و بیرون ملک اپنے غیرمعمولی مظاہروں کے ذریعہ کلاسیکی موسیقی سے لوگوں کو قریب کیا۔ انہوں نے ملک و بیرون ملک بے شمار پروگرامس پیش کئے۔ آج دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے شاگرد اپنے استاد کی وراثت کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ ان شاگردوں میں ان کے اپنے بیٹے اور پوتے بھی شامل ہیں۔ مرحوم استاد غلام حسین خاں کا کیریئر بڑا روشن رہا۔
انہیں بے شمار اعزازات عطا کئے گئے۔ وہ آل انڈیا ریڈیو (A.I.R) اور دوردرشن کے اے گریڈ کے حامل سینئر آرٹسٹ رہے۔ اس کے ساتھ انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنس (ICCR) کے منظورہ فنکار رہنے کا بھی اعزاز حاصل رہا۔ وزارت سیاحت، تہذیب و ثقافت کے محکمہ تہذیب و ثقافت نے سینئر فیلوشپ کا ایوارڈ بھی انہیں پیش کیا تھا۔ آل انڈیا ریڈیو اور دوردرشن کے قومی موسیقی ریز پروگرامس میں خاص طور پر انہیں مدعو کیا جاتا رہا۔ پرسار بھارتی کی جانب سے (2001) ڈاگر برادرس کی دھروید سوسائٹی کے 1995ء ڈوورلین کی جانب سے 1985ء کے دوران کولکتہ میں اور اسوسی ایشن آف انڈین یونیورسٹیز (A.I.U)، پورٹ بلیر سنگیت سمیلن (1983ء) انڈین ہائی کمیشن سنگاپور (1992ء) میں انہیں خصوصی طور پر مدعو کیا گیا جہاں ان کے فن موسیقی سے لوگ محظوظ ہوئے۔ SPIC MACAY میں مہمان آرٹسٹ کے طور پر مدعو کئے گئے۔ 1986ء میں راگ رنگ سلور جوبلی موسیقی ریز پروگرام میں شاندار و یادگار مظاہرہ کیا۔ 1980ء میں میاں تان سین سنگیت سمیلن منعقد کیا گیا جس میں استاد غلام حسین خاں نے اپنے فن کے ذریعہ شرکاء کے دل جیت لئے۔ 1981ء کے ہربلبھ سنگیت سمیلن، آئی ٹی سی سنگیت ریسرچ اکیڈیمی 1995ء اور سر سنگر سمسد (1983ء) جیسے پروگرامس میں استاد غلام حسین نے اپنے فن کے ذریعہ شائقین موسیقی کو حیران کردیا۔ انہیں راگ ساگر اور راگ ملکہ پر غیرمعمولی عبور حاصل تھا۔ یہ سب کچھ استاد غلام حسین خاں نے اپنے مسلسل ریاض کے نتیجہ میں حاصل کیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ موسیقی کا فن ایک وقت طلب فن ہے جس میں ریاض کے ساتھ ساتھ نکھار پیدا ہوتا ہے۔ اگر آپ گھنٹوں ریاض کرتے ہیں تب ہی آپ میں مہارت پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ کہا کرتے تھے کہ مغربی موسیقی کا اثر عارضی ہوتا ہے جبکہ کلاسیکی ہندوستانی موسیقی اذہان و قلوب کو چھولیتی ہے۔