حبیب محمد بن عبداللہ رفیع المرغنی
عرب کی اس تاریخ ساز ملکہ کی یہ آفاقی دولت کہاں خرچ ہوئی اور کن مقامات پر اس کا استعمال اسلام کی بنیادیں مستحکم کرنے کا اہم ترین سبب بنا؟ چند مقامات ِمصارف یہ ہیں: ۱۔ دعوت ذوالعشیرہ کے سہ روزہ اجلاس کے انتظامات اور دسترخوان کو اس مال خدیجہ سے سجایا گیا۔۲۔ ہجرت حبشہ جس میں پہلے قافلہ میں گیارہ مرد اور چار عورتیں اور بعدہُ بڑاقافلہ جس میں پچاسی مرد اور سترہ مستورات شامل تھیں، ان کی آمد و رفت اور قیام حبشہ کے تمام مصارف آپ نے ادا فرمائے۔ ۳۔ سابقون الاولون جو کہ انتہائی پسماندہ اور مکہ کا غربت کی بدترین چکی میں پسا ہوا نادارو مفلس اور غلاموں،کنیزوں پر مشتمل طبقہ تھاجن پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا اور مکہ کا چپہ چپہ ان کا دشمن ہو رہا تھا،ان کے جملہ اخراجات اور حضور ﷺ کی جانب سے کی جانے والی استعانت مال خدیجہ سے تھی۔ ۴۔ مکہ کے شدید قحط میں اہل اسلام کے علاوہ پورے مکہ اور اطراف و جوانب کے لوگوں کی مدد اور خوراک کی فراہمی، کاملاً آپؓ کے مال سے ہوئی۔۵۔ بعثت نبوی کے ساتویں سال محرم الحرام سے لے کر بعثت نبوی کے نویں سال ذی الحجہ تک شعب ابی طالب میں پورے خاندان بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کی قید سخت کے دوران پورے قبیلہ کی کفالت اور بعد ازاں حضور کے جملہ مصارف میں آنے وا لی رقم اسی مال خدیجہ سے تھی۔۶۔ حضور کے قیام مکہ اور سفر طائف کے تمام اخراجات ، ہر گام پر سیدہ طاہرہ کی یاد دلاتے رہے۔۷۔ غار ثور میں تین شبانہ روز قیام اور مدینہ جانے کیلئے سواری اور اہل اسلام کی ہجرت مدینہ کے تمام اخراجات،مال خدیجہ سے ادا ہوئے۔ ۸۔ عالم اسلام کی پہلی مسجد قبا کیلئے خریدی جانے والی زمین کے دیئے جانے والے دس ہزار دینار ،سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ کے تھے۔۹۔ اصحاب صفہ کے جملہ اخراجات اسی مال سے ادا ہوتے رہے۔ ۱۰۔ ہجرت مدینہ کیلئے مکہ کے بیکس ومجبور ،مظلوم ستم رسیدہ،فاقہ مست و نادار،غریب مہاجرین جو ابھی تک کفار مکہ اور صنادید قریش کے پنجۂ ظلم و ستم میں سسک رہے تھے انہیں آذاد کروا کر مدینہ تک لانے میں مال خدیجہؓ خرچ ہوا۔ان میں موذن رسول بلال حبشی قابل ذکر ہیں۔ کفار مکہ نے ان غلاموں کو آزاد کرنے کیلئے کئی سو گنا ذیادہ قیمت مقرر کی جو سب کی سب سیدہ خدیجہ طاہرہؓ کے پاک و پاکیزہ مال میں سے ادا کی گئی۔مدینہ منورہ میں حضور ؐکے جملہ مصارف اور اصحاب کبار کی کفالت و امور زندگانی میں معاونت اسی مال خدیجہ سے ہوئی۔ اسلام کے عظیم الشان قلعہ کی ایک ایک اینٹ آپ کے بابرکت مال سے تعمیر ہوئی۔
تاریخ سازحیات مبارکہ: ام المومنین کی پاکیزہ زندگی اور سیرت طیبہ نے حقوق نسواں کی واضح تشریح فر مائی ہے۔آپ کی پوری زندگی خواتین عالم کی کامیابی و کامرانی کیلئے بہترین لائحہ عمل اور نمونۂ کردار ہے۔دنیاوی حیات مبارکہ کے ہر موڑ پر آپ نے عظمت نسواں اور کمالات انسانی کے گرانقدر ذخائر عالم بشریت کی نذر فرمائے ہیں اور آپ کی تابندہ زندگی کا ہرگوشہ قبل از عقد و بعد از عقد نورانیت وروحانیت کے ساتھ ساتھ مادی ترفع اور ترقی کا بھی روشن چراغ ہے۔تجارت میں کامرانی،رفیق زندگی کے انتخاب میں سربلندی،حیرت انگیز عقل و بصیرت ،تبلیغ اسلام میں شراکت،سیاست عرب میں حصہ، حقوق زوجیت کی احسن ادائیگی،بچوں کی تربیت اور صدمہ، سیرت کی حد درجہ پاکیزگی اور کردار کی اسقدر بلندی کہ تمام عرصۂ حیات کسی سے تلخ کلامی تک نہ ہوئی۔ شہزادی ہو کر بھی گھر کا سارا کام اپنے دست مبارک سے کرنا،شوہر کا خیال، امور خانہ داری کی دیکھ بھال اور ان سب کے باوجود عبادت خدا سے ذرہ بھر غفلت نہ برتنااور نسوانیت کو بام عروج پر پہنچا دینا ،تاریخ عالم میں آپ کا سب سے قدآور شخصیت ہونے کا بین ثبوت ہیں۔عام الحزن : بعثت نبوی کے دسویں سال، شعب ابی طالب کا محاصرہ ختم ہوااور خانوادۂ ابوطالب آزاد ہوا۔محبوب خدا کیلئے یہ سال اور بھی ذیادہ تکلیف دہ ثابت ہوا اور آپ کے دونوں مضبوط سہارے خدا کو پیارے ہو گئے۔ماہ رجب المرجب دس نبوی میں سردار عرب سیدنا ابو طالب نے وصال فرمایااور آپ کے صرف تین ماہ بعددس رمضان المبارک کو عالمی تاریخ کا دھارا موڑ دینے والی عرب کی یہ نامور خاتون، اُم المؤمنین ،اُم الزھرا،سیدہ طاہرہ خدیجۃ الکبریٰ کا وصال ہوا۔ ان دونوں محترم ہستیوں کی یکے بعد دیگرے اموات نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پہ گہرا اثر فرمایا اورآپ رنج والم سے نڈھال ہو گئے۔ اس غم والم اور درد و کرب کے باعث اس سال کو آپ نے ’’عام الحزن‘‘ قرار دیا۔حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا پچیس سال تک حضور اکرم ﷺ کی خدمت گذاری سے سرفراز رہی۔ہجرت سے تین برس قبل پینسٹھ برس کی عمر پا کر۱۰ رمضان المبارک کو مکہ معظمہ کے میں آپ نے وفات پائی۔ حضور اقدس ﷺ نے مکہ کے مشہور قبرستان حجون (جنت المعلٰی) میں خود بہ نفس نفیس ان کی قبر میں اُتر کر اپنے مقدس ہا تھوں سے ان کو سپردِ خاک فرما یا۔چونکہ اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لئے آپ نے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ (ختم شدہ)