حبیب محمد بن عبداللہ رفیع المرغنی
اُم المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلی اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپؓ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ ایک روایت کے مطابق اس وقت اُم المؤمنین کی عمر چالیس سال تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف پچیس سال کے تھے۔ حضرت خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی اُم المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری کی ساری اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پیدا ہوئی اورصرف حضرت ابراہیم ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تھے جوکہ اسکندریہ کے بادشاہ اورقبطیوں کے بڑے کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوبطورہدیہ پیش کی گئی تھیں۔
مرج البحرین یلتقیان: بے پناہ خوشیاں اور لازوال مسرتیں لئے صبح نور نمودار ہوئی۔خاتم الانبیاء کو جان سے بڑھ کر چاہنے والے چچا ابو طالب نے اپنے دست مبارک سے دولہا بنایااور سرداران قریش،بزرگان مکہ،دانشمندان بطحا،سادات اور نوجوانان بنی ہاشم برہنہ شمشیریں علم کئے باوقار انداز میں سرتاج انبیاء کو اپنے حلقہ میں لئے ،شہزادیٔ عرب کے محل کی جانب روانہ ہوئے۔ بارات نبوت پر رحمت الٰہی سایہ فگن تھی۔کہکشائیں نثار ہو رہی تھیں۔بہاریں پھول برسا رہی تھیں۔ارواح انبیاء مسرور و شادماں تھیں۔ ملائکہ فرط مسرت سے جھوم رہے تھے۔ ہزارہا مسرتوں اور دعاؤں کے سایہ میں سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باراتی آہستہ آہستہ، سکون و اطمینان اور وقار و عظمت کے ساتھ منزل سے قریب تر ہو رہے تھے۔بارات جب جناب خدیجہ کے دروازے پر پہنچی تو آپ کا آستانہ بقعۂ نور بن کر آنے والے مہمانوں کا پرتپاک خیر مقدم کر رہا تھا۔ جب کاروان سادات بنی ہاشم اور معززین شہر شہزادی ٔعرب کے جگمگاتے ہوئے محل کے سامنے پہنچا تو اس وقت جناب عباس و جناب حمزہ شمشیریں علم کئے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دائیں بائیں چل رہے تھے۔ مہمانوں کا شاندار استقبال کیا گیا۔تھوڑی ہی دیر بعد پرسکون مجمع میں ایک آواز بلند ہوئی، ’’اللہ کی قسم !آسمان نے سایہ نہیں کیا اور زمین نے بوجھ نہیں اٹھایاکسی کا جو محمد ؐسے افضل ہو۔اس لئے میں نے اپنی بچی کا شوہر قرار دینے اور ہمسر بنانے کے لئے ان ہی کو پسند کیا ہے، پس تم لوگ اس پر گواہ رہو‘‘۔ یہ آواز سیدہ خدیجہؓ کے چچا عمروبن اسد کی تھی۔ اس کے بعد سردار مکہ سیدنا ابوطالب خطبۂ عقد پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہمیں حضرت ابراہیم کی اولاد سے، حضرت اسماعیل کی کھیتی سے ،معد کی نسل سے اور مضر کی اصل سے پیدا فرمایا۔نیز ہمیں اپنے گھر کا پاسبان اور اپنے حرم کا منتظم مقرر فرمایا،ہمیں ایسا گھر دیاجس کا حج کیا جاتا ہے اور ایسا حرم بخشا جہاں امن میسر آتا ہے۔نیز ہمیں لوگوں کا حکمران مقرر فرمایا۔ حمد کے بعد ،میرا یہ بھتیجاجس کا اسم گرامی محمد ابن عبداللہ ہے،اس کا دنیا کے بڑے سے بڑے آدمی کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا تو اس کا پلڑا پھر بھی بھاری ہو گا۔اگرقلت مال ہے تو کیا ہوا،مال تو ایک ڈھلتی چھاؤں ہے ا ور بدل جانے والی چیز ہے اور محمد جس کی قرابت کو تم جانتے ہو ،اس نے خدیجہ بنت خویلد کا رشتہ طلب کیا ہے اور بارہ اوقیہ سونا مہر مقرر کیا ہے۔اور اللہ کی قسم ،مستقبل میں اس کی شان بہت بلند ہوگی،اس کی قدر ومنزلت بہت جلیل ہو گی‘‘۔
جمال الدین محدث شیرازی،شاہ سمرقندی اور دیگر مورخین نے لکھا ہے کہ سیدنا ابو طالب نے مہرمعجل میں بیس اونٹ،پانچ سو درہم،چار سو دیناراور چار سو مثقال سونا پیش کیا۔اس کے بعد عالم کتب سماوی ورقہ بن نوفل نے حضرت سیدہ خدیجہ الکبریٰ کی طرف سے خطبۂ عقد پڑھا اور فضائل و کمالات بنی ہاشم کا اعتراف فرما یا اور عقد مبارک کی تقریب انجام پذیر ہوئی۔اس مبارک موقع پر جنتیں سجائی گئیں، حور و غلماں آراستہ ہوئے ،بہشتی دروازے کھول دئیے گئے،شجرۂ طوبیٰ سے زروجواہر لٹائے گئے۔ملائکہ سجدہ ریز تھے۔ زمین سے لے کر آسمان تک کی چیزوں کو زینت دی گئی اورخصوصی حکم الٰہی سے جبرائیل امین نے خانۂ کعبہ پر لواء حمد لہرایا۔ پھر فضا میں آواز گونجی، ان اللہ قد زوج الطاہر بالطاہرۃ والصادق بالصادقۃِ، اللہ نے طاہر کو طاہرہ اور صادق کو صادقہ سے بیاہ دیا۔ محفل عقد کے اختتام پر تمام دوسرے لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور مرسل اعظم اپنے چاہنے والے چچاؤں کے ہمراہ خانۂ ابوطالب میں تشریف لائے۔ اس پرمسرت موقع پر سب مسرور تھے مگر سیدنا ابو طالب سب سے بڑھ کر مسرور و شادمان تھے۔ شادی کی پرمسرت تقریب سے فارغ ہونے کے بعد سیدنا ابو طالب نے دعوت ولیمہ کا انتظام فرمایااور اس میں مکہ کے عظیم سردار نے اپنی سروری کے شایان شان انتظامات فرمائے۔شادی کے تیسرے دن سیدالمرسلین سیدناابوطالب اور دوسرے اعمام اور نوجوانان بنی ہاشم کے حلقہ میں شہزادیٔ عرب اور ام المومنین خدیجہ الکبریٰ کے قصر نور کی جانب روانہ ہوئے۔ …جاری ہے
…گزشتہ سے پیوستہ …
وہاں پہنچے تو آپ کے پیارے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب نے یہ قصیدہ پیش کیا:
اے قریش و آل غالب ،تمہیں عنایات کی بشارت ہو۔
اے میری قوم وقبیلہ والو!ثناء جمیل اور بے حساب عنایات پر فخر کرو۔
لوگو!تمہارا فضل و شرف اور بلندیٔ مراتب زمانہ میں معروف ہے۔
تم سبب افتخار بن گئے احمد کے دم سے ،جو زینت ہیں ہر طیب و طاہر کے لئے۔
ان کا نور چودہویں رات کے چاند کی مانند ہے جو ہمیشہ روشنی پھیلاتا رہتا ہے۔
اے خدیجہ!آپ کامیاب ہوئیں،بڑی جلیل و عظیم عطاؤں کے ساتھ۔
جوانمرد کے ذریعہ جو بڑے بڑے منصبوں پر فائز ہے۔
خدا نے ان کے ذریعہ تمہاری جماعت کو اجتماع کی توفیق عطا کی ،پس وہی تمام مطالب کا پروردگار ہے۔
احمد سردار خلائق ہیں جو ہر پیادہ و سوار سے بہتر و افضل ہیں۔
ان پر لگا تار درود و سلام ہوتا رہے ،جب تک سواریوں پر سوار چلتے رہتے ہیں۔
اس قصیدہ مبارکہ کے دوران مکہ کے درو دیوار سے تحسین و آفرین کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔سیدہ خدیجہ الکبریٰ نے سن کر فرمایا ’’جان لوکہ محمد ؐکی شان بہت بلند و برتر ہے اور ان کا فضل ہر کسی کے لئے عام ہے،ان کی سخاوت بڑی عظیم ہے‘‘۔تاریخ انسانیت کی یہ منفرد ،پہلی اور آخری شادی ہے جس سے پہلے کسی نے ایسی شادی دیکھی نہ اس کے بعد ،جس میں لوازمات دنیا کے ساتھ ساتھ الٰہی توجہات نے چار چاند لگا دیئے تھے،نہ دنیاوی مال و حشمت اور تمکنت کی کمی تھی نہ الٰہی برکات و عنایات کی۔