حافظ صابر پاشاہ
اُمہات المومنین تمام اُمت مسلمہ کی خواتین کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لہذا ان کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوکر خواتین اپنی عائلی زندگی کو خوشگوار اور دین اسلامی کے مطابق بسر کرسکتی ہیں۔ ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی سوانح حیات کا مطالعہ کرنے کے بعدہم اپنی زندگیوں میں کس طرح بہتری کا سامان پیدا کرسکتے ہیں۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اُمت مسلمہ کو یہ پیغام دیا کہ ہر حال میں دین اسلام کو فوقیت دینی چاہئے، اس کے لئے چاہے کتنے ہی کٹھن دور سے کیوں نہ گزرنا پڑے۔ آپ نے دین اسلام کو پسند کرتے ہوئے اپنے والد ابوسفیان کو مکہ چھوڑ کر اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کی لیکن کچھ عرصے بعد جب ان کے شوہر عبیداللہ بن جحش مرتد ہوگئے تو ان کو لاکھ سمجھانے کے باوجود نہ ماننے پر تنہا زندگی بسر کرنا پسند کی۔ پھر نہایت صبرو شکر سے زندگی کے دن گزارنے لگیں۔بعد ازاں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوکردلی سکون و اطمینان میسر آیا۔ ۱۶سال بعد جب اُم حبیبہ کے والد گرامی ابوسفیان اپنی بیٹی سے ملنے آئے تو آپ رضی اللہ عنہا نے انہیں عزت و تکریم دیتے ہوئے حجرے میں بلایا لیکن بستر نبوت ﷺ پر بیٹھنے کی اجازت نہ دی۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد کا نام ابوسفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس اور والدہ کا ام صفیہ بنت ابی العاص بن امیہ بن عبدالشمس بن عبد مناف تھا جو حضرت عثمان غنی ؓ کی پھوپھی تھیں۔ گویا حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے سترہ سال قبل مکہ میں پیدا ہوئیں۔ اس وقت ابوسفیان صخر بن حرب کی عمر ۳۳ سال تھی۔ آپ کی پیدائش واقعہ فیل کے تئیس سال بعد ہوئی۔آپ کی کنیت اُم حبیبہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر عبیداللہ بن جحش سے ایک لڑکی حبیبہ پیدا ہوئی اس وجہ سے آپ کی کنیت اُم حبیبہ ہے۔حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نام ان کے والد نے رملہ رکھا تھا ۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے دم آخر اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کو بلاکر ان سے معافی طلب کی کہ ان معاملات میں معاف کردیں جو ازواج کے درمیان ہوجایا کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت ہم سب کو حضور ﷺ کے نعلین پاک کے تصدق و نظر کرم سے ان پاک ہستیوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین