’’اُٹھ مسلمان اُٹھ‘‘

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری

کچھ دن پہلے واٹس اپ گروپ پر ایک پوسٹک آئی تھی جس میں میڈرڈ اسپین کے ایک میوزیم میں مجسمہ کی تصویر تھی ۔ اس مجسمہ کا نام مسلم ، عیسائی اور یہودی رکھا گیا ۔ بڑا معنی خیز اور سبق آموز مجسمہ ہے۔ اس پوسٹ کو دیکھ کر پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ ۱۹۷۹؁ء کی بات ہے ، میں اپنی کم عمری میں اسپین کے دورہ پر تھا کہ دیکھوں کہ مسلمانوں کا سنہری دور کیسا تھا اور کیونکر وہاں سے مسلمان رُسوا ہوکر نکلے ۔ اس مجسمہ میں ایک مسلمان کو سجدہ میں سب سے نیچے دکھلایا گیا ہے ، اُس کے اوپر ایک عیسائی اور سب سے اوپر یہودی کھڑا ہے ۔ میں اس مجسمہ کے سامنے کھڑا بڑا آزردہ ہورہا تھا کہ یا اﷲ یہ کیاماجرہ ہے ؟ تو نے اپنے مسجود بندہ کے اوپر دوسروں کو مسلط کردیا ؟؟ابھی میں اس سونچ و فکر میں تھا کہ وہاں ایک یہودی سیاح آیا اور اُس نے اس مجسمہ پر اعتراض کیا تو گائیڈ نے پوچھا : آپ کو کیوں اعتراض ہے بھائی جبکہ آپ سب سے اوپر کھڑے ہیں تو یہودی نے جواب دیا اگر ہر مسلمان کھڑا ہوا تو ہم دونوں نیچے گرکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے ۔ مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا ۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کے مسلمان پر دنیا کے کونے کونے میں غیرمسلم حاوی اور مسلط ہیں ۔ اگر ہم اپنا محاسبہ ایمانداری سے کریں تو جان جائیں گے کہ ہماری اس حالتِ زار کے لئے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنا امیج (Image) بُری طرح سے تار تار کر رکھا ہے ۔ ساری دُنیا میں ہم ناپسندیدہ ہیں ۔ وہ اس لئے کہ ہم بُرا سونچتے ہیں ، بُرا بولتے ہیں اور بُرے کام کرتے ہیں ۔ بداخلاقی سے پیش آتے ہیں ۔ غریبوں اور کمزوروں کی مدد نہیں کرتے بلکہ اُن پر ظلم کرتے ہیں ۔ دوسروں کی جائز ملکیتوں پر ناجائز قبضے کرتے ہیں ۔ یتیموں کے مال لوٹتے ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں ۔ ہم بے حس ہوگئے ہیں کہ ہمیں پڑوسیوں کی تکلیف نظر نہیں آتی ۔ بے ایمانی ہمارا شیوہ ہے ۔ نوجوانو ! اپنے خاندان کے بزرگوں سے پوچھو ، چند دہوں پہلے کی بات ہے کہ ہر خاندان میں ایک ایسی مقبول شخصیت ہوا کرتی تھی جس سے خاندان والے ، محلہ والے اپنا دُکھ درد بانٹ لیا کرتے تھے اور راحت پاتے تھے ۔ اپنی امانتیں اُن کے پاس رکھواتے تھے کہ وہ امانت میں خیانت نہیں کرتے ۔ غیرمسلم محلہ دار اپنے بیوی بچوں کو اُن کے پاس چھوڑ جاتے تھے کہ وہ کبھی بھی بُری نظر نہیں اُٹھاتے ۔ مسلمان فیملی کی محلہ میں موجودگی کو لوگ باعثِ رحمت و برکت سمجھتے تھے۔ لیکن آج کل کے حالات میں ہمارا معاملہ بالکل اُلٹ گیا ہے ۔ وہ اس لئے کہ ہم نے اﷲ اور رسولؐ کے راستوں کو چھوڑدیا ہے ۔ اور دوسر کی راہوں پر گامزن ہیں ۔ ہم سیاسی ، مذہبی ، معاشی اور ثقافتی طورپر بُری طرح بکھرے ہوئے ہیں اور جب کوئی قوم بکھرجاتی ہے تو اُسے سوائے اﷲ کے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ۔ ہم نے اپنی زندگی کا محور اپنے آپ کو بنالیا ہے اور چاہتے ہیں کہ ساری دنیا ہمارے اطراف گھومے۔ ’’میں اور میرا میں ‘‘ ہماری زندگی کا مقصد بن گیا ہے ۔ اﷲ فرماتا ہے کہ : ’’اور یہ کہ میرا راستہ سیدھا ہے اور دوسرے راستوں پر نہ چلنا کہ خدا کے راستے سے ہٹ جاؤ گے ‘‘۔ (سورۃ الانعام :۱۵۸) حجۃ الوداع کے خطبہ میں حضورﷺ فرماچکے ہیں : ’’لوگو ! قرآن اور میری سنت کی رسی کو مضبوطیسے پکڑ کر رکھنا تاکہ تم اس دنیا اور آخرت میں کامیاب اور کامران ہوجاؤ ‘‘ ۔ بدقسمتی سے یہ رسی ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ چکی ہے اور ہم ساری دنیا میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں ۔
اﷲ ہمیں حُکم دے رہا ہے ’’ قُمْ فَأَنْذِرْ ‘‘ اس لئے اے مسلمان اُٹھ اور ہدایت کی طرف دوڑ ۔ اپنے آپ کو صحیح معنوں میں اُمتِ ’’رحمۃ اللعالمین‘‘ بنا کہ ساری انسانیت کے لئے ہم رحمت بن کر اُٹھیں اور پھر سے اپنا کھویا ہوا وہی مقبول مقام دوبارہ حاصل کرلیں!