اُ ر د و ز باں کی بے حُرمتی !!

   

ڈاکٹر جی ۔ ایم ۔ پٹیل
ہندوستان میں کئی فلاحی سماجی تنظیمیں ہیں جو باقاعدگی سے ’ ’ عالمی یوم ِ مادری زبان‘‘ کا جشن بڑے پیمانے پر منانے کا سلسلہ برقرار رکھاہے۔ جلسوں کا جائزہ لیا جائے تو کچھ تنظیمیں ضرور اُردو کی خدمات میں بہترین پروگرام منعقد کرواتی ہیںاور باقائدہ اُردو کی خدمات کے لئے اعزازات، اوارڈس اور انعامات عطا کرتی ہیں۔ باقی اکثر تنظیموں کا اصل مقصد محض ’ رسمیت ‘ ہوتا ہے یا پھر ضمنی طور سے سال میں اس نوعیت کا جلسہ منعقد کروانا اپنی تنظیم کو زندہ رکھنے اور سرکار ی عطیہ حاصل کرنے کے لئے یہ طریقۂ کار جو لازمی ہے۔ جشن کی چند تصویریں ، مہمانِ خصوصی کی تقریر کی تحریر ی تفصیل لکھی، فائل بنالی اور محفوظ رکھ دیا الماری میں پھر انتظار اگلے سال کا ! ورنہ اُردو زبان کی خدمت، اسکی فلاح اسکے فروغ کے لئے بالکل بھی نہیں ۔
ملک کی تقسیم کے بعد تعصبی سیاست دانوں نے اُردو زبان کو ’ غدار‘ کہا اُردو کو صرف مسلمانوں کی زبان قرار دیا جو قطعی غلط تھا۔ سیاستدانوں نے آئین کے مطابق اردو کو زندہ تو رکھامگر اسکی حفاظت ، اسے ’’دوسری سرکاری زبان ‘‘ کا درجہ اردو کی ترقی اور فروغ کے جھوٹے وعدے کرتے رہے محض اپنی مجبوری کے تحت تاکہ کسی طرح اردو کے چاہنے والے بہل جائیں اور انکی ووٹ بینک کی سیاست چلتی رہی ۔اصل میں سیاست دانوں نے اُردو کے خلاف سارے ماحول میں نفرت اور فرقہ پرستی کا زہر پھیلاکر اُردو کے خلاف سازشوں کا جال پھیلا رکھا ہے اور ہر طرح سے یہی کوشش کہ اُردو مٹ جائے۔
۱۹۶۵ء؁ یہ ُاردو زبان کے لئے ایک سیاہ سال بن گیا ۔ اُردو کے لئے تعصبی حکمرانوں کے ذہنوں میں جو تلخیاں ،کڑواہٹ، بدلے کی نیت پنپ رہی تھی اب اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے منصوبہ کے مطابق اپنا پہلا ناپاک قدم اُٹھایا اور ’’ اُتر پردیش‘‘ کے تمام اُردو اسکول کو بند کروانے کاحکم دیا ۔اُردو کی بنیاد مٹانے ا ور اُردو کو اس کی جڑ وںسے اکھاڑ پھینکنے کا یہ عمل اُردو نوازوں اور اردو کے چاہنے والوں کو بالکل بھی برداشت نہ ہوا ۔ سارے ملک میں اس کے خلاف نفرت کی لہر دوڑ گئی اور تمام اُردو کے چاہنے والوں نے سارے ملک میں پُر زور احتجاج شروع کیا ۔ سارے ملک کے ہنگامی حالات نے حکمرانوں کی نیند حرام کردی ۔اس بگڑے ماحول کو سُدھارنے کے لئے ہمیشہ کی طرح انہوں نے عقلمندانہ شطرنجی چال چلی اور ایک خاص قدم اُٹھایا۔
۱۹۶۵ء؁ مین مرزا غالبؔ کی سویں برسی منانے کا بیڑا اٹھا لیا۔سو سال پُرانی خستہ حال غالبؔ کی ترُبت از سرِ نو اسکی تعمیر کروائی اسکی شکل بدل ڈالی اور سجا دھجا کر آراستہ کیا ۔ حکمران نے ایک اور چانکیہ فیصلہ کیا۔ اُرود جاننے والوں کی کمزوری سے بخوبی واقف تھے تو فوراََ اعلان کر دیا کہ مرزا غالب کی سویں برسی کے موقعہ پر دہلی میں ایک ’’ عالیشان عالمی مشاعر ہ ‘‘ ہوگا جس میں ملک کے مشہور و معروف شعرا حاضر رہیں گے ‘‘۔ اب سارا المیہ طربیہ میں تبدیل ہوتا گیا ، اردو کے چاہنے والے شکوہ شکایت کو فراموش کئے مصروف ہوگئے مشاعرے کی تیاریوں میں ۔ اس عالمی مشاعرے میں ملک کے معروف شعرا کی حاضری طئے ہوئی ۔انقلابی ،بے باک عالمی شہرت یافتہ معروف شاعر ساحرؔ لدھیانوی کی آمد نے چاہنے والوں اور مشاعرہ شائقین کو پُر کشش بنایا لیکن سیاستداں واقف تھے کہ ساحر ؔ کے پاس ’’نہ تیر ہے ، نہ تلوار‘‘ لیکن اس کے ’ ’ انقلابی اشعار‘‘ جو تمام سامعین میںانقلابی چنگاری سُلگائیں گے اور سیاست داں بخوبی جانتے تھے کہ بالکل وقتی طور پر اس کا اثر رہے گا پھر رات ڈھل گئی بات ٹل گئی۔ مشاعرے کا آغاز ہوا موقعہ کی نزاکت کو جانتے ہوئے ساحرؔ نے اپنی نظم ’’ جشنِ غالب ‘‘ سُنائی اسکے چند اشعار
اکیس برس گذرے آزادیٔ کامل کو
تب کہیں جاکے ہم کو غالبؔ کا خیال آیا
تربت ہے کہاں اسکی ؟ مسکن تھا کہاں اسکا؟
اب اپنے سُخن پرور ذہنوں میں سوال آیا
سو سال سے جو تُربت چادر کے کو ترستی تھی
اب اس پہ عقیدت کے پھولوں کی نمائش ہے
اُردو کے تعلق سے کچھ بھید نہیں ہوتا
یہ جشن یہ ہنگامہ خدمت ہے کہ سازش ہے
آزادیٔ کامل کا اعلان ہوا جس دن
معتوب زباں ٹھہری ، غداّر زباں ٹھہری
جس عہدِ سیاست نے یہ زندہ زباں کچلی
اس عہدِ سیاست کو مرحوم کا غم کیوں ہے؟
غالب ؔ جِسے کہتے ہیں اردو ہی کا شاعر ہے
اُردو پہ ستم ڈھاکر غالبؔ پہ کرم کیوں ہے ؟
مظاہرے ہوتے رہے مگر سرکار ٹس سے مس نہ ہوئی ۔علماء نے مدرسوں کی بنیاد رکھی اور کسی طرح عربی کی آغوش میں اُردو نشو و نما پاتی رہی۔
وزیرِ محکمۂ اقلیتی امور مختار عباّس نقوی ’’ قومی کونسل برائے فروغ ِ اُردو زبان دہلی ‘‘ آفیس میں ایک مختصر میٹنگ میں اپنے وہاں پہنچنے کی تشریح کرتے ہوئے ظاہر کردیا کہ قومی کونسل برائے فروغ اُردو ‘‘ کو موجودہ وزارتِ ترقی انسانی وسائل HRD سے ہِٹا کر محکمۂ اقلیتی امور میں منتقل کرنے کا فیصلہ جلد ہی لیاجائے گا۔ مطلب صاف تھا ۔ قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان” کے اختیارات اور فنڈس کو لگام لگانا ، اُردو کی خدمات کو محدود کرنا اور اسے محکمہ ٔ اقلیتی امور کے کسی ایک کونے میں محض’’ اردو شعبہ کی نمائش ‘‘ کے طور پر بغیر کسی توجہ اور دیکھ بھال کے برائے نام رکھادینا اور پھر موقعہ پاتے ہی اسے وہاں سے بھی غا ئب کرکے اپنے عین مقصد میں فتح پانا ۔خبرابھی بستوں میں بند ہے عام نہیں ہوئی اور عام ہو بھی جائے تو انکو اسکی پرواہ بالکل بھی نہیں۔کون انکا کیا بگاڑے گا !
اُردو کے وجود کو مٹانے میں اُرد و کے اپنے چاہنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ لیتے ہیں نام اُردو کا ، فائدہ اُٹھاتے ہیں ،انعام و اکرام پاتے ہیںاور اُسی اُردو سے بے وفائی کرتے ہیں ۔ان کی اپنی نسلوں کی تعلیم اب ان کا وقار و شان بن چُکی ہے۔ دکھاوے کے لئے کہئے یا پھر ان پڑوسی ، دوست احباب پر رعب جمانے کی خاطر ، جس اسکول کا عطیہ سب سے زیادہ ہے اور جہاں شہر کے امیروں کے بگڑے بچے تعلیم حاصل کرنے کا ڈھونگ کرتے ہیں اسی اسکول میں منہ مانگی رقم دے کر بچوں کا داخلہ لیں گے۔ا نہیںاپنے بچوں کے مستقبل کی سوچ و فکر بالکل بھی نہیں ؟ اب یہاں اُردو کی فلاح کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ خود اُردو کی تعلیم دینے والے مدرس بھی اُردو کی خاظر بالکل بے حس ہیں۔ اسقدر اُردو کی بے حُرمتی ،لاپرواہی، بے توجہی اور غفلت نے اُردو کی فروغ اور ترقی کا کافی نقصان پہنچایا ہے۔لیکن ذہن نشین کرلووہ طلبا و طالبات جنہوں نے اُردو میڈیم سے پڑھائی کی ’’ انجینئر ،ڈاکٹر، آئی پی ایس ، اور ، آئی اے ایس‘‘ افسر کے امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے اور انہیں فخر ہے اُردو کی بنیادی تعلیم اُردو زبان سے ہوئی۔ سارے ملک میں اِسکی لاکھوں مثالیں موجود ہیں۔
عالمی مشاعرے تو کافی منعقد ہوتے ہیں کچھ تنظیموں نے اسے ایک تجارت بنا رکھی ہے۔ اب شعراء بھی کسی سے کم نہیں خوب ترقی کر لی ہے اپنے مفاد کے لئے انہوں نے باقائدہ’’ گروپ ‘‘ مقرّر کر رکھے ہیں ۔جہاں مشاعرہ ہوگا وہاں وہ سارا گروپ پہنچ جائے گا۔ مطلب یہی کہ شاعروں کی ٹھوک ، کلی طور پر ایک مشت ان کی خرید و فروخت ہوگی پھر یہاں نہ شاعر کی قابلیت دیکھی جاتی ہے اور نہ ہی اسکے کلام کا معیار پرکھا جاتا ہے،پرکھی جائے گی ان کی کم سے کم شرح ! جو تنظیمیں مشاعرہ منعقد کرواتی ہیں ان میں بھی سوچ و فکر ،سنجیدگی بالکل بھی نہیںاور بہرِ صورت ان کو فکر ہوتی ہے انکے اپنے منافع کی اس پر ستم ظریفی اس قدر کہ اس عالیشان اردو عالمی مشاعرے کے تمام بیانرس ، پوسٹرس ’’ ہندی اور انگریزی میں چھپوائیں گے اور جس اسٹیج پر شعرا حضرات تشریف رکھتے ہیں ان کے سروں پر سامعین کے روبرو روشنی میں جگمگاتا بڑا پوسٹر ’’ عالمی اردو مشاعرہ‘‘ بھی ہندی میں چھپا ہوگا ۔ اُسی پوسٹرکے کسی کونے میں اردو میں لکھا دکھائی پڑے گا اگر کوئی دوربین کا استعمال کرلے تو اسے دیکھ سکتا ہے ۔ اس طرح اُردو کی بے حُرمتی کی تمام حدیں عبورکر جائیں گے۔
اب ٹھوک شرح میں خریدے شاعر بھی اُردو زبان کو بخشیں گے نہیں بہ آواز بلند ’’ زندگی کو جندگی ‘‘ ’’غم کو گم ‘‘ اور ’’خدا کو کھدا ‘‘
اُرد و کی آغوش میں ڈاکٹر علامہ اقبالؔ، چکبست برج نرائن ، حسرت موہانی ، فراق گورکھپوری ، جگرمرادآبادی ، جوش ملیح آبای ، فیض احمد فیضؔ، اسرار الحق مجازؔ، احمد فراز، نریش کمار شاد، سردار جعفری، مخمور سعید، ساحر ؔلدھیانوی، شکیل بدایونی، کیفی اعظمی ، مجروح سلطانپوری، جاں نثار اختر، مہندر سنگھ بیدی، وسیم بریلوی، راحت اندوری۔ منور رانا جیسے عظیم ومعرو ف شعرا نے جھولا ہے، ماں کی ممتا ، محبت ، رغبت پائی ہے ان کے علاوہ پریم چندر ، عصمت چغتائی، حسن منٹو ، کرشن چندر، قرتہ العین حیدر ، واجدہ تبّسم سے لے کر اے آر خاتون، رضیہ بھٹ، عادل رشید، گلشن نندہ، جیسے فنکار افسانہ نگار ابنِ صفی، اکرم الہ آبادی عارف مارہروی معروف جاسوسی ناول نویس۔ ’’بابائے اُردو ‘‘ ’ مولوی عبدالحق‘ جنہوں نے اپنی ساری عمر اردو کے لئے وقف کردی۔ انہیں تمام اُردو کے انمول رتن، اردو کے روشن ستارے، اردو کے تابناک و برّاق خورشید کی بدولت ہی آج اُردو کا اعلیٰ معیار و بلند وقار اُردو کی آن، بان شان قائم ہے ۔