اِندرا گاندھی ، ایمرجنسی اور اپوزیشن

   

وینکٹ پارسا
ملک میں ہر سال اپوزیشن جماعتیں 25 ، 26 جون کو ایمرجنسی کی برسی مناتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اس برسی کو ہندوستانی دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں نے ایک سیاسی پلیٹ فارم میں تبدیل کردیا ہے تاکہ اندرا گاندھی کو بدنام کرکے اس کا سیاسی فائدہ اُٹھایا جاسکے ۔جہاں تک اندرا گاندھی کا سوال ہے، وہ ملک کے عظیم وزرائے اعظم میں سے ایک تھیں۔ یہ تمام سیاسی جماعتیں ایمرجنسی کی یاد مناتے ہوئے یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے جمہوریت اور جمہوری اداروں کو نقصان پہنچایا اور ہم (اپوزیشن جماعتوں) نے جمہوریت کو بچایا اس کا تحفظ کیا) لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا ایمرجنسی کے بارے میں جو بھی بیان یا موقف ہے، وہ پورا سچ نہیں ہے۔ اگر پورا سچ سامنے لایا جائے تو پھر وہ نہیں جانتے کہ وہ کس جانب دیکھیں، اسی وجہ سے یہ لوگ اپنے بہتر امیج یا شبیہ کی تجدید کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنی سیاسی بقاء کو یقینی بنا سکیں۔ اندرا گاندھی نے 25 جون 1975ء کو ملک کو میں ایمرجنسی نافذ کرنے سے متعلق فیصلے کیلئے بحیثیت سربراہ حکومت مکمل اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری قبول کی تھی اور ایمرجنسی کے نفاذ سے لے کر ایمرجنسی برخاست کئے جانے تک جو کچھ بھی ہوا اندرا گاندھی نے اس کی بھی اخلاقی یا سیاسی ذمہ داری لی تھی۔ انہوں نے تمام سیاسی قائدین کی رہائی کا نہ صرف حکم دیا بلکہ 18 جنوری 1977ء کو تازہ انتخابات کرانے کا بھی حکم جاری کیا تھا۔
اندرا گاندھی نے کبھی بھی اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی نہیں کی یا ذمہ داریوں سے فرار اختیار نہیں کیا جو ایک عظیم لیڈر کی خوبی ان کی پہچان اور علامت ہے۔

اصل مسئلہ ہمارے میڈیا اور اپوزیشن میں حقائق سے متعلق دیانت داری کے فقدان کا پایا جاتا ہے۔ اپوزیشن اور میڈیا نے حقیقی تصویر پیش کرنے سے گریز کیا۔ ایمرجنسی کے نفاذ اور اس کے تعلق سے اندرا گاندھی کو جہاں تک بدنام و رسوا کرنے کا سوال ہے، ان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے چاہے، وہ دائیں بازو کی جماعتیں ہوں یا بائیں بازو کی جماعتیں تمام نے ایک پرجوش رسواکن اور کردار کشی کی مہم چلائی۔ کئی دہوں سے اندرا گاندھی کی کردارکشی کی مہم کا سلسلہ جاری ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ان جماعتوں نے حقائق پر پردہ ڈال دیا ہے۔ زائد از چار دہوں سے ایمرجنسی کے مسئلہ کو لے کر اپوزیشن جماعتیں اندرا گاندھی کی کردارکشی میں مصروف ہیں۔ وہ عوام کو یہ بتانے سے جان بوجھ کر گریز کرتی ہیں کہ وہ کیا وجوہات تھیں، جس نے اندرا گاندھی کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے پر مجبور کیا۔ اندرا گاندھی کی ایک خراب شبیہ پیش کرنے کی ایک مہم مسلسل چلائی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ ایمرجنسی کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کیلئے آر ایس ایس کے نانا دیشمکھ اور آر ایس ایس کے حمایت یافتہ جئے پرکاش نارائن کی قیادت میں جو تحریک چلائی گئی، وہ یقینا کوئی فینسی تحریک نہیں تھی۔ اس تحریک کے نتیجہ میں 1977ء میں ایمرجنسی کی برخاستگی اور تازہ انتخابات کروانے کا اعلان کیا گیا۔
وہ اندرا گاندھی کا شخصی اور سیاسی فیصلہ تھا جس کیلئے ایمرجنسی نافذ کی گئی۔ جس کا مقصد قوم کو کنارے سے کھینچ لاکر اسے پٹریوں پر واپس لانا تھا اور اندا گاندھی نے وہی کیا، اس کے بعد اگر ایمرجنسی کے سلسلے کو جاری رکھا جاتا تو اسے کسی بھی طرح منصفانہ نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ اپوزیشن نے اندرا گاندھی کے خلاف رسواء کن مہم چلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، اس کے باوجود 1977ء میں اندرا گاندھی نے آزادانہ، منصفانہ اور شفافانہ انتخابات کروائے جس میں سیاسی جماعتوں اور عوام نے بے خوف و خطر حصہ لیا۔ ان انتخابات نے عالمی سطح پر اندرا گاندھی کی ایک جمہوریت پسند اور جمہوریت کی حامی لیڈر کی حیثیت سے شبیہ مزید مضبوط کی۔

اندرا گاندھی نے 1977ء میں ملک کے انتہائی منصفانہ انتخابات میں سے ایک کا انعقاد عمل میں لایا۔ انہوں نے ان انتخابات کو آزادانہ و منصفانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان انتخابات میں کانگریس کا ملک کی ہندی پٹی سے صفایا ہوگیا خود اترپردیش جیسی ملک کی بڑی ریاست میں کانگریس شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ حد تو یہ تھی کہ اندرا گاندھی کو ان کے اپنے پارلیمانی حلقہ رائے بریلی سے شکست اُٹھانی پڑی۔ 1947ء میں آزادی کے تین دہوں بعد کانگریس کو 1977ء میں پہلی مرتبہ ناکامی ہوئی اور اسے اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔
میڈیا اور اپوزیشن نے جھوٹے دعوے کرتے ہوئے اندرا گاندھی اور ان کی حکومت کے خلاف عوام میں بڑے پیمانے پر غلط فہمی پیدا کی۔ مثال کے طور پر یہ افواہ پھیلا دی گئی کہ اندرا گاندھی کی حکومت نوجوانوں کی زبردستی نس بندی کررہی ہے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ عوام میں اندرا گاندھی کے خلاف جذبات و احساسات پیدا کرنے کیلئے کیسے سرگوشی کی مہم چلائی گئی اور کس طرح کی کہانیاں گھڑی گئیں۔ مثال کے طور پر ایک کہانی یہ بھی رہی کہ جب کسی بس میں ایک بیوہ سوار ہوئی تب ایک نوجوان نے کسی سے التجا کی کہ وہ اندرا گاندھی کیلئے (بیوہ کا حوالہ دیتے ہوئے) نشست خالی کرے، وہ نوجوان یہ کہہ رہا تھا کہ سادہ لباس میں ملبوس پولیس والے اچانک نمودار ہوئے۔ اُسے گریبان سے پکڑا اور چلتی بس سے اسے لے کر اُتر گئے اور پھر اس کا فیملی پلاننگ آپریشن (نس بندی) کردی حالانکہ اس طرح کے واقعات میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ یہ واقعات کہاں، کب، کون کیا، جیسے سوالات سے پُر تھے۔ اس قسم کی فرضی و من گھڑت کہانیوں کا مقصد لوگوں کے ذہنوں میں افواہوں کے ذریعہ خوف و دہشت پیدا کرنا تھا۔

آپ کو یاد ہوگا کہ ماڈرن پریڈ (ماڈرن ڈبل روٹی) اس وقت بہت ہی مقبول برانڈ کی ڈبل روٹی ہوا کرتی تھی۔ اس کے بارے میں بھی یہ افواہیں پھیلادی گئیں کہ اس روٹی میں بھی خاندانی منصوبہ بندی (نس بندی) کی گولیاں ملادی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں 1977ء میں اقتدار پر آئی جنتا پارٹی کی حکومت نے 33 تحقیقاتی کمیشن قائم کئے اور ان میں سے کسی نے بھی اس قسم کے واقعات کی تصدیق نہیں کی اور نہ ہی جنتا پارٹی کی حکومت نے کوئی کارروائی کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں خاندانی منصوبہ بندی پروگرام بہت زیادہ متاثر ہوا اور اب بھی اس پروگرام کو شک و شبہ کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے، حالانکہ ہندوستان دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جس نے خاندانی منصوبہ بندی پروگرام شروع کیا تھا۔ 1952ء میں ہی اس پروگرام کی شروعات ہوچکی تھی اور اس کا کریڈٹ دھن وتنری راما راؤ کی کوششوں کو جاتا ہے۔ ابتداء میں خاندانی منصوبہ بندی پروگرام کو برتھ کنٹرول کے طور پر شروع کیا گیا لیکن اندرا گاندھی نے اس کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اس کے ذریعہ ماں اور بچہ کی صحت، تغذیہ اور خاندانی بہبود کا بھی احاطہ کیا۔ اندرا گاندھی کا احساس تھا کہ جب تک خاندانی منصوبہ بندی کامیاب نہیں ہوجاتی، تب تک حق تعلیم، حق غذا اور حق صحت مند زندگی کی برقراری مشکل ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ایمرجنسی نافذ ہوئے تقریباً 50 سال ہوئے ہیں اور اس دوران بہت سے لوگوں نے کیا ، اس بات پر غور کیا کہ آخر ایمرجنسی کیوں اور کس لئے نافذ کی گئی تھی، اس کے پیچھے کارفرما مقاصد کیا تھے؟

بہرحال ناقدین اور مورخین کیلئے یہ وقت ہے کہ وہ دوبارہ ان حقائق اور زمینی حقائق پر دوبارہ غور کریں جو ایمرجنسی کے اعلان کے وقت تھے۔ انہیں یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ میڈیا اور اپوزیشن نے انہیں کیسے پیش کیا۔
میڈیا اور اپوزیشن نے تو عوام کے سامنے ایمرجنسی کو لے کر اندرا گاندھی کی غلط تصویر پیش کی اور یہ ظاہر کیا کہ اندرا گاندھی نے جمہوریت اور جمہوری آزادی سے خود کو دور رکھتے ہوئے اقتدار پر اپنی برقرار کو اولین ترجیح دی اور اپنے اقتدار کیلئے ہی انہوں نے ایمرجنسی نافد کی تھی حالانکہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ 25 جون 1975ء کو ایمرجنسی نافذ کرنے کے فوری بعد اندرا گاندھی نے اپنے ایک انٹرویو میں ٹائمس آف انڈیا کے ایم شمیم کو 3 جولائی 1975ء کو بتایا تھا کہ ایسے عناصر جن کا نظریہ تشدد اور خلل ہو، وہ جمہوریت پسند نہیں ہوسکتے۔ ان لوگوں کیلئے جمہوریت کا نام لینا ایسے ہی ہے جیسے کوئی کمسن جس نے اپنے والدین کو قتل کیا ہوا اور اس بنیاد پر رحم کی درخواست کررہا ہو کہ وہ ایک یتیم و یسیر ہے اور اس بناء پر اسے معاف کیا جانا چاہئے۔

سیاسی جماعتیں جمہوریت کے تئیں پوری طرح پابندِ عہد نہیں۔ ان جماعتوں نے صرف اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے جمہوری آزادی کا استحصال کیا اور جمہوریت بچاؤ کا لبادہ اُوڑھ کر اس کی آڑ میں وہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے خواہاں رہے۔ ایمرجنسی کے دوران صرف اسمگلرس، غیرسماجی عناصر اور ملک دشمن عناصر کو جیلوں میں بند کیا گیا۔