اخلاقِ حسنہ اور اخلاق سیئہ

   

اسلام مساوات انسانی کا علم بردار ہے۔ وہ بنی نوع انسان کو نسلی، علاقائی اور لسانی بنیاد پر ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتا، بلکہ اولاد آدم کی حیثیت سے سب کی مساوات کا قائل ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو کسی پر فضیلت نہیں دیتا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہے: ’’دیکھو! عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں، سوائے تقویٰ کے‘‘۔ اسلام نے جہاں مساوات کی تعلیم دی ہے، وہاں دو طرح کی مساوات مراد ہے، یعنی (۱) قانونی مساوات (۲) معاشرتی مساوات۔ قانونی مساوات یہ ہے کہ قانون کے دائرۂ اثر میں سب یکساں ہیں۔ قانون سب کے لئے ہیں۔ صاحب حیثیت اور بے حیثیت میں کوئی فرق و امتیاز نہیں۔ یہ نہ ہو کہ کوئی صاحب حیثیت ارتکاب جرم کرے تو اپنے جاہ و مرتبہ کی وجہ سے چھوٹ جائے اور کوئی بے حیثیت آدمی جرم کرے تو فوراً دھر لیا جائے۔ اسی طرح ’’معاشرتی مساوات‘‘ یہ ہے کہ سوسائٹی میں سب کو یکساں مقام حاصل ہو، کوئی برتر اور کوئی کمتر نہ ہو، سب کو معاشی، معاشرتی، علمی اور فنی ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں۔

اسی طرح اسلام اپنے فرزندوں میں ’’اخوت‘‘ کا رشتہ قائم کرتا ہے۔ اللہ تعالی کا واضح ارشاد ہے کہ ’’تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں‘‘ (الحجرات۔۱۰) یہ اخوت ایک طرف ملت اسلامیہ کے استحکام کی ضامن ہے تو دوسری طرف ایک پرامن اور صالح معاشرہ کی۔ اس سلسلے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائیوں جیسے تعلقات رکھیں، ان کا باہمی برتاؤ شفقت و ترحم پر مبنی ہو۔ سب آپس میں ایک دوسرے کے خیرخواہ، خدمت گزار اور ہمدرد ہوں۔ ایک دوسرے کے رنج و غم اور مسرت و شادمانی میں برابر کے شریک ہوں اور جو چیزیں تعلقات کو خراب کرنے والی اور کدورت پیدا کرنے والی ہوں، ان سے اجتناب کریں۔

اسلامی اخلاقیات کی بنیاد خوف خدا اور رضائے الہی کی طلب ہے۔ تمام اخلاق اسلام کے نزدیک صرف اس صورت میں قابل ستائش ہیں، جب ان کا باعث خوف خدا اور ان سے مقصود رضائے الہی کی طلب ہو۔ اگر اس کے علاوہ کوئی اور مقصود ہو تو ان محاسن کے بہتر معاشرتی نتائج تو یقیناً قوانین نفسیات و عمرانیات کے تحت نکلیں گے، لیکن آخرت میں ان سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ مسلمان ہر قدم اٹھانے سے پہلے یہ سوچتے ہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالی کو ناپسند تو نہیں، ان کا یہی وصف تقویٰ کہلاتا ہے۔ قرآن کریم میں جہاں تقویٰ اور نیکی کی تعلیم دی گئی ہے، وہیں متقی لوگوں کے لئے آخرت کی زندگی میں فوز و فلاح کی بشارت بھی سنادی گئی ہے۔ جب انسان کے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہو جاتی ہے، یعنی وہ خدا سے ڈرنے لگتا ہے تو لازماً اس کے اندر دو کیفیتیں ضرور ابھرتی ہیں: (۱)اطاعت: ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص اللہ سے ڈرتا ہے تو وہ معصیت کا ارتکاب کرتا ہے نہ فرماں برداری سے گریز کرتا ہے، وہ تو ہر حکم پر سرتسلیم خم کردے گا (۲) محاسبہ: یہ بھی تقویٰ کا ایک لازمی تقاضہ ہے۔ جب کوئی خدا سے ڈرنے لگتا ہے تو قدم قدم پر وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتا رہے گا، اس طرح محاسبہ کرکے وہ برائیوں سے بچتا ہے اور مزید نیکیاں کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہ دونوں کیفیتیں (اطاعت اور محاسبہ) اگر کسی انسان میں نہ ہوں تو سمجھ لیجئے کہ وہ تقویٰ سے خالی ہے۔
اسلام نے جہاں ’’اخلاق حسنہ‘‘ کا ذکر کیا ہے، وہیں ’’اخلاق سیئہ‘‘ سے بھی اپنے ماننے والوں کو واقف کرایا ہے۔ چنانچہ ضرورت سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش اور جذبہ ’’حرص‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ جذبہ بالعموم تین چیزوں میں دیکھنے کو ملتا ہے، دولت میں، جاہ و منصب میں اور شہرت میں۔ اگر انسان ٹھنڈے دل سے سوچے تو اس بات کا سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ یہ دنیا ناپائیدار ہے، یہاں کی ہر چیز فانی ہے، یہاں کی ایک چیز بھی ایسی نہیں جو انسان کے پاس ہمیشہ باقی رہنے والی ہو۔ اب یہ کتنی حماقت ہے کہ انسان کسی ناپائیدار شے کو اپنا مقصود بنالے اور اس کو حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگ کر اپنی ابدی زندگی کو فراموش کردے۔ ضرورت کے مطابق کسی چیز کا حاصل کرنا، قابل مذمت نہیں بلکہ لائق ستائش ہے۔ لائق ستائش اس لئے کہ یہ نہ ہو تو انسان دوسروں کا محتاج اور دست نگر ہو جائے گا۔ لیکن حرص وہ ہے، جس کی حد نہ ہو۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ حرص کا منہ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اسے صرف قبر کی مٹی ہی بھرسکتی ہے۔ یہ ایک ایسی خطرناک بیماری ہے، جو نفس انسانی کو ہر آرام و راحت سے محروم کردیتی ہے، جسم و اعصاب تھک کر چور ہو جاتے ہیں، لیکن پھر بھی حرص کا منہ کھلا ہی رہتا ہے۔ اس بیماری سے بچنے کا واحد علاج قناعت ہے، یعنی انسان اپنی واقعی ضرورتوں کی تکمیل پر اکتفاء کرے اور اس سے زیادہ کا آرزومند اور اس کے لئے کوشاں نہ ہو۔
حرص کی وجہ سے انسان جائز و ناجائز میں فرق کرنا چھوڑدیتا ہے اور حلال و حرام کی تمیز اس کے احساسات سے خارج ہو جاتی ہے۔ پھر یہ دوسرے لوگوں کی حق تلفی بھی ہے۔ آمدنی کے ذرائع اور وسائل ایک فرد کے ہاتھوں میں سمٹ آتے ہیں اور ان پر اجارہ داری قائم ہوتی ہے، جو معاشی اعتبار سے قوم کی تباہی کا سامان ہے۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ جو شخص حرص کی وجہ سے زائد از ضرورت دولت حاصل کرلیتا ہے، اس کی اولاد بالعموم نکمی اور نالائق ہوتی ہے۔ کیونکہ اولاد کو باپ کی بے شمار دولت بغیر کسی محنت کے ہاتھ لگ جاتی ہے۔ اسے احساس ہی نہیں کہ دولت محنت سے کمائی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ایسے امیر زادے باپ کے پیسے سے عیاشی کرتے ہیں، دولت کو بے دردی سے لٹاتے ہیں، اس طرح معاشرہ معاشی طورپر غیر متوازن ہوکر تباہ ہو جاتا ہے۔

اسی طرح ’’شہرت کی حرص‘‘ بھی ہوتی ہے۔ یہ سراب کے پیچھے دوڑنا ہے۔ کسی اچھے کام کی وجہ سے شہرت حاصل ہوتی ہے تو ہو جائے، لیکن شہرت کو مقصود نہیں بنانا چاہئے، اس لئے کہ یہ بھی ناپائیدار ہے۔ دنیا ایک اسٹیج کی مانند ہے اور افراد اس اسٹیج کے اداکار ہیں۔ سب اپنا اپنا کردار ادا کرکے پردے سے ہٹ جاتے ہیں، بقائے دوام کسی کو بھی حاصل نہیں۔ پھر یہ جذبہ اتنا گھٹیا ہے کہ انسان اس کے لئے ایسی ایسی حرکتیں کرنے لگتا ہے، جو کم ظرفی اور کمینگی کی حدوں تک پہنچی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ سے شہرت حاصل ہو بھی جائے تو عزت کے ساتھ بہرحال نہیں ہوتی۔ کتنی بری ہے وہ شے جو عزت کے بدلے حاصل ہو۔ پھر بعض انسان تو اس جذبہ سے سرشار ہوکر اتنے گرجاتے ہیں کہ ازخود وہ ایسا پیشہ اختیار کرلیتے ہیں، جو گھٹیا اور ذلیل ہوتا ہے۔ کتنے انسان ہیں، جو اسی جذبہ کے تحت بھانڈ اور جوکر بن جاتے ہیں اور اپنے چہروں پر فنکاری کا غازہ مل لیتے ہیں اور کتنے ہیں جو چور اور ڈاکو بن جاتے ہیں۔