صابر علی سیوانی
اِنسانی رشتوں کے نزاکتیں ایسی ہوتی ہیں، جیسے کوئی آبگینہ ہو کہ ذرا سی ٹھیس لگے اور وہ چکنا چور ہوجائے۔ رشتے بہت مشکل سے بنتے ہیں لیکن ان کے ٹوٹنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگتی۔ معمولی سی بداحتیاطی ذرا سا لااُبالی پن اور تھوڑی سی عدم توجہی سے انسانی رشتوں میں دراڑ پیدا ہوجاتی ہے، کون کب اور کس بات پر ناراض ہوجائے اس کے بارے میں کوئی قطعی رائے قائم نہیں کی جاسکتی کیونکہ انسان کا دل بہت نازک ہوتا ہے۔ کون سی بات یا کون سا عمل اس کے طبع نازک پر گراں گزر جائے، اس تعلق سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ کبھی کبھی معمول کے خلاف کچھ افعال یا کچھ اقدام لوگوں میں غلط فہمی پیدا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص سب سے ملتا جلتا رہتا ہے، رشتہ داروں کے ہاں وقتاً فوقتاً حاضری دیتا رہتا ہے لیکن اپنے ناسازگار حالات کے باعث جب وہ لوگوں سے یا رشتہ داروں سے تعلقات، میل جول اور ربط کم کرلیتا ہے تو اس کے متعلق غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے اور یہ رائے قائم کرلی جاتی ہے کہ وہ شخص مغرور ہوگیا ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ جب کبھی انسان پر برا وقت آتا ہے تو خود کو اپنے گھر تک محدود کرلیتا ہے، اسے لوگوں سے ملنے جلنے میں کوئی دلچسپی نہیں رہ جاتی، حالانکہ وہ اِدھر اُدھر اس لئے نہیں نکلتا ہے کہ کہیں اس کے چہرے سے اس کے مفلسی کے خطوط نمایاں نہ ہوجائے یا اس کی گفتگو میں اس کی تنگ دستی کا اظہار نہ ہوجائے، شاعر کے لفظوں میں:
میں نے اپنی مفلسی کا اس طرح رکھا بھرم
واسطے کم کردیئے ، مغرور کہلانے لگے
جدید شعراء نے زندگی کا ان مسائل وضوعات کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا ہے جو نہایت حساس ہیں اور جو انسانی شتوں کی نزاکتوں سے تعلق رکھتے ہیں، روزی روٹی کا مسئلہ ہمیشہ سے انسان کا اہم ترین مسئلہ رہا ہے۔ آج کل تو اس مسئلہ نے کچھ زیادہ ہی اہمیت حاصل کرلی ہے۔ اب شعر صدف حکایت وصال و فراق اور حسن و عشق کی ہی باتیں نہیں کرتے بلکہ جو انہیں زندگی سے جو تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ شعری قالب میں ڈھال ہوتے ہیں۔ معاشی ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے کہ اس کی تلاش میں انسان اپنے تمام احباب رشتہ دار اور اپنے نہایت قریبی لوگوں کو چھوڑ کر یا تو سات سمندر پار چلا جاتا ہے یا اسے شہر بہ شہر بھٹکنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اسی مسئلہ کی سنگینی کی طرف افتخار عارف یہ شعراء اشارہ کرتا ہے جو ضرب المثل کے طور پر شہرت رکھتا ہے۔ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سگ زبانہ کی طرف کی ہم بھی ایک شہر سے دوسرے شہر تک کا سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
شکم کی آگ لئے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگ زمانہ ہیں، ہم کیا ہماری ہجرت کیا
روزی روٹی کی تلاش میں بیٹے اپنی ماں کو گھر میں تنہا چھوڑ کر پردیش چلے جاتے ہیں اور ماں بھی سینے پر پتھر رکھ کر اپنے بیٹے کو اپنے سے جدا کرنے کیلئے تیار ہوجاتی ہے، کیونکہ اسے اس مسئلہ کی حساسیت کی بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ افتخار نسیم نے درج ذیل شعر میں یہی بات کہنے کی کوشش کی ہے۔ نہایت پراثر انداز میں کہا گیا۔ یہ شعراء رکھئے:
طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں
چل دیئے بیٹے سفر پر گھر میں مائیں رہ گئیں
انسانی رشتے کی بنیاد اس بات پر ٹکی ہوتی ہے کہ انسان ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشی میں شامل ہو، جس ماحول میں وہ رہتا ہے، اس سے وہ اثر ضرور قبول کرتا ہے۔ دانستہ طور پر یا نادانستہ طریقے سے وہ اپنے آس پاس کی چیزوں، قرب و جوار کے لوگوں اور ضرورت مند افراد کے حالات سے واقف ہو ہی جاتا ہے، لیکن اس کا کیا کیجئے کہ اب شہری زندگی نے خصوصاً اپارٹمنٹس میں رہنے والوں اور بڑی بڑی کالونیوں میں رہنے والوں کی فکری سمت بالکل ہی بدل ڈالی ہے، نظمی سکندرآبادی نے اس رجحان اور طرز زندگی بھر بہت ہی خوبصورت منظرکشی کی ہے اور اس سچائی کا اظہار کیا ہے کہ پڑوسی نہ آپ کے نام سے واقف رہتا ہے اور نہ ہی وہ آپ کے کاروبار سے، باخبر ہوتا ہے۔
پڑوسی نام سے واقف، نہ شغل و شوق سے اپنے
عجب انداز سے ہم لوگ اپنے گھر میں رہتے ہیں
یہ اس عہد کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسی تک کی خبر نہیں ہوتی جبکہ اسلام میں پڑوسی کی خبر گیری اور اس کے حالات سے آگاہی کی ترغیب دی گئی ہے۔ زمانہ کی ایسی ہی روس اور اس خود غرضی کی جانب بشیر بدر نے اشارہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ کئی سال سے اس شہر میں ہمارے قریبی عزیز و رشتہ دار رہتے ہیں، لیکن یہ ہی ستم ظرفیقی ہے کہ نہ ہم ان سے واقف ہیں اور نہ ہی انہیں میری خبر ہے حالانکہ دونوں کو اس کا علم ہوتا ہے کہ ہاں کے رشتہ دار فلاں مقام پر رہتے ہیں۔
اس شہر میں کئی سال سے میرے کچھ قریبی عزیز ہیں
انہیں میری کوئی خبر نہیں مجھے ان کا کوئی پتہ نہیں
کبھی کبھی یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے کام کرتے اور شغل و شوق کا ساتھ ہوتے ہوئے بھی ذہنی و فکری اور جذباتی طور سے ان سے دور ہوتے ہیں۔ بشیر بدر کے مطابق:
بہت عجیب ہے، یہ قربتوں کی دُوری بھی
وہ میرے ساتھ رہا اور مجھے کبھی نہ ملا
برسوں سے ایک آنگن میں رہنے والے افراد اچانک ایک دوسرے سے ایسے دور ہوجاتے ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ کبھی ساتھ رہے ہیں، نہ ہوں، ایسا تب ہوتا ہے جب فریقین یا چند فریق کے درمیان اثاثہ جات، جائیداد اور املاک کے بٹوارے کا وقت آتا ہے اور جوں ہی آنگن کے درمیان کھڑی ہوتی ہے یا دیوار گرادی جاتی ہے اور اسلام امجد کا یہ شعرا اس نازک اور حساس مسئلے کو موضوع سخن بنایا ہے۔
کہنے کو ایک صحن میں دیوار ہی بنی
گھر کی فضاء مکان کا نقشہ بدل گیا
بدیہ اور انسانی قدروں اور شتوں کے زوال کا زور ہے۔ بڑے چھوٹے کا لحاظ ختم ہوتا جارہا ہے۔ ذرا سی بات پر اپنے بیٹے کو مار ڈالتا ہے اور بیٹے کی مرضی کے مطابق اگر کوئی کام نہ ہو اور باپ اس میں حائل ہو تو بیٹا باپ کو جان سے مار ڈالا ہے۔ مشترکہ خاندان کا رجحان ختم ہوتا جارہا ہے، شادی ہوتے ہی بیٹا اپنی بیوی کے ساتھ الگ رہنا چاہتا ہے۔ بوڑھے ماں باپ کو گھر کے کسی کنارے غیرضروری تھے کی طرح ڈال دیا جاتا ہے، وہ بیٹے بہو سے ڈرے ڈرے اور سہمے سہمے ہوتے ہیں۔ یہ وہاں باپ ہوتے ہیں جو بھلے کچھ نہ دیتے ہوں لیکن اس سایہ دار درخت کی طرح ہوتے ہیں جو کم از کم سایہ ضرور دیتے ہیں۔ یہ وہی اولادیں ہوتی ہیں جنہیں ماں باپ پریوں کے قصے سناکر بچپن میں سلایا کرتے تھے، اب اسمارٹ فون دیکھنے دیکھنے دیکھتے سوجاتے ہیں لیکن افسوسناک امر تو یہ ہے کہ اب انہیں ماں باپ کی آواز تک اچھی نہیں لگتی، سعید رئیس کا ایک شعر ملاحظہ کیجئے:
جو مجھ سے روز پریوں کی کہانی سن کے سوتے تھے
انہی بچوں کو میرا بولنا اچھا نہیں لگتا
یہی ماں باپ جب اپنی پرانی یادوں کے البم پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک لمحہ میں زندگی کے 50، 60 برس آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں، جو بچوں کی خواہشات کی تکمیل اور انہیں کامیاب انسان بنانے کی کوشش میں گزرے ہوتے ہیں۔ اپنی تمام خواہشیں قربان کرکے اولاد کی ضرورتوں کی تکمیل کی خاطر سب کچھ قربان کردینے والے والدین کو جب ان کی اولادیں انہیں دھتکاری اور جھٹکتی ہے تو ان کے سامنے ماضی کے وہ تمام مناظر رقص کرنے لگتے ہیں جو ان کی قربانیوں سے عبارت ہوتے ہیں ایسے عالم میں وہ یہ کہہ اُٹھتے ہیں:
سوچنے بیٹھیں تو اس دنیا میں
ایک لمحہ نہ گزارا جائے
(محمد علوی)
معاصر شعراء کے یہاں انسان کو پیش آنے والے مماثل پر کثیر تعداد میں اشعار تھے۔ بشریٰ روابط سے پیدا ہونے والے مسائل الجھنیں کرنا کی اور دل آزاری وغیرہ موضوعات پر جدید شعراء نے طبع آزمائی کی ہے۔ تنہائی، ریاکاری، بے وفائی، بے گھری، بے سرو سامانی، بے روزگاری، غربت، افلاس، شدت پسندی، مذہبی انتہا پسندی، لاتعلقی، عدیم الفرصتی، انمول سے دوری، قتل و غارت گری، شہروں کی بے رونقی، دغا بازی، دھوکہ دہی، دوستوں کی ایذا رسانی، طوطا چشمی اور نہ جانے کتنے موضوعات وسائل ہیں جو عصری شاعری کا حصے بنے ہیں۔ ان اشعار کی روشنی میں ہم اپنے ملک و معاشرے کی سچی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔
مثال کے طور رپ خاطرؔ غزنوی نے ایک شعر میں ذرا سی بات پر برسوں کی دوستی ٹوٹ جانے پر افسوس کیا جائے لیکن یہ بھی کہا ہے کہ چلو اسی بہانے کچھ لوگوں کے برسوں سے چھپے ہوئے اصلی چہرے تو سامنے آگئے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو دو چہرے رکھتے ہیں۔ ایک چہرہ ہمیشہ دکھائی دیتا ہے، جبکہ اصل چہرہ کسی بڑے فائدہ یا کثیر دولت کے حصول کے وقت سامنے آجاتا ہے۔ پھر حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ خاطرؔ غزنوی کے اس ضرب المثل شعر پر
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
نداؔ فاضلی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ہر انسان کے اندر دس بیس انسان چھپے رہتے ہیں، اسے دیکھنے اور اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے کیلئے اسے کئی بار دیکھنا چاہئے۔
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو، کئی بار دیکھنا
جدید شاعری کے سرمایہ میں زندگی کی پوشیدہ حقیقتوں سے پردہ اُٹھانے والے ہزاروں اشعرا موجود ہیں۔ یہ وہ اشعار ہیں جو ہیں ایک جہاں معنی پوشیدہ ہے، ان شعار کی مدد سے ہم بشر شناسی کا کام بہت اچھی طرح کرسکتے ہیں۔ انسان جو دیکھنے میں بالکل سادہ لوح اور سیدھا سادا معلوم ہوتا ہے کہ لیکن اس کے چہرے پر نفرت، عصبیت، ریاکاری، خود غرضی، خودپسندی اور ایذا رسانی کی کتنی پرتیں موجود ہیں جو وقت کے ساتھ پیاز کے چھلکوں کی طرح اُترتی جاتی ہیں۔ انہیں پرتوں کی نشاندہی جدید شعراء نے کی ہے۔٭
mdsabirali70@gmail.com
غزل