آکر دیکھ مجھے میںشاہین باغ

   

سید اسماعیل ذبیح اللہ
ہر قسم کے دبائو ‘ حربوں کااستعمال اور لاکھ کوششوں کے باوجود شاہین باغ کے احتجاجی مظاہرے میں شامل خواتین کے حوصلوں میں نہ تو کوئی کمی ائی ہے او رنہ ہی وہ اپنے احتجاجی مظاہرے سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں۔سلام ہے ہے شاہین باغ کی خواتین کو جنھوں نے پولیس کے جبر‘ انتظامیہ کے ظلم او ر حکمرانوں کی بربریت کے خوف کوبالائے طاق رکھ اور اپنے اہل وعیال کو چھوڑ کر ‘ آنے والی نسلوں کو خوف کے سایہ سے دور رکھنے اور فرقہ پرست طاقتوں کے ناپاک عزائم کو چکنا چور کرنے کے مقصد سے دہلی کی سرد راتوں میں دن اوررات ‘ سی اے اے ‘ این آرسی اور این پی آر سے دستبرداری کا مطالبہ کررہی ہیں
ہندوستان بھر میںشہریت ترمیمی قانون ( سی اے اے ) ‘ قومی رجسٹرار برائے شہریت ( این آرسی ) اور قومی آبادی رجسٹرار ( این پی آر) کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔ تمام عمر او رطبقات کے لوگ اس احتجاج میںشامل ہیں۔ اس احتجاج کی وجہہ کسی کے تحویلی مرکز ( ڈٹینشن کیمپ) جانے کا خوف نہیںبلکہ مستقبل کی نسلوں کو فرقہ پرستوں کے ناپاک عزائم سے آگاکرنا اور انہیں ملک کو تقسیم کرنے والی طاقتوں سے مقابلہ کرنے کے اہل بنانے کی کوشش کا حصہ ہے۔اترپردیش‘ کرناٹک کے بشمول ملک کی وہ ریاستیں جہاں پر بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) کی حکومت ہے وہاں پر بھی مسلمانوں کے ساتھ سکیولر ذہن کے حامل غیر مسلم اصحاب ‘ جس میںتمام شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے دانشواران بھی شامل ہیں‘ پوری شدت کے ساتھ مذکورہ احتجاج کاحصہ بنے ہوئے ہیں۔اور یہ مظاہرین مذہب کی بنیادپر شہریت کی فراہمی کے مقصد سے لائے جانے والے سی اے اے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ملک کے مختلف حصوں میں مذکورہ سیاہ قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے ۔ ریاست اترپردیش میںجہاں یوگی ادتیہ ناتھ کی زیرقیادت بی جے پی حکومت ہے وہاں سی اے اے‘ این آرسی او راین پی آر کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرنے والوں پر گولیاں برسائیںگئیں اس کے باوجود احتجاج کرنے والوں کے حوصلوں میںکوئی کمی نہیںائی ہے۔ بالخصوص مسلمان سروں پر ٹوپیاں پہن کر احتجاج کرنے کے لئے کہیں بھی خوفزدہ دیکھائی نہیںدے رہے ہیں۔ شمالی ہندوستان کی بیشتر ریاستوں میںمسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنانے ‘ ائین کے ارٹیکل 370کی برخواستگی کے بعد ایودھیا معاملے میںسپریم کورٹ کے یکطرفہ فیصلے کے بعد سے مودی حکومت یہ سونچ رہی تھی کہ ہندوستان کے مسلمان خوفزدہ ہیں اور یہی وجہہ ہے کہ وہ سڑکوں پر اترنے سے قاصر ہوگئے ہیں‘ مگر مودی حکومت کا اندازہ غلط ثابت ہوا ‘ حکومت نے اس بات کو فرامو ش کردیاتھا کہ مسلمان وہ قوم ہے جس نے ملک کی آزادی کے لئے پھانسی کے پھندو ں کو چومنا پسند کیاتھا ۔ آج بھی تاریخ کے اوراق اس بات کی گواہی دیں گے مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کو مقدس فریضہ جہاد کا نام دیاتھا۔ ملک کی سالمیت او روقار کے لئے برگیڈیر عبدالحمید نے اپنی جان کی قربانی دی وہیں انڈیا گیٹ کی فصیل پر تحریر مسلم شہدئوں کے نام اس بات کی گواہی دیں گے کہ مسلمانوں نے ملک کی آزادی اور اس کے وقار کو بلند رکھنے کے لئے کیسے اپنی جانوں کو وطن عزیز پر قربان کیاہے۔ شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ‘ اور امکانی این آرسی کے علاوہ این پی آر کے منظرعام پر آنے کے بعد ملک کے سکیولر اقدار پر منڈالتے خطرات کو دیکھ کر پھر ایک مرتبہ مسلمانوںنے جمہوری ہندوستان کی بقاء کے لئے میدان میںاترنے کا فیصلہ کیا اور اس کو دوسری جنگ آزادی ہند کا نام دے کر سی اے اے ‘ این آرسی او راین پی آر کے خلاف ملک بھر میںاحتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا۔ دوسرے دور کی اس جدوجہد کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں خواتین احتجاج کی قیادت کررہے ہیں اور دہلی کا شاہین باغ اس احتجاج کا مرکز بناہوا ہے۔ واضح رہے کہ شاہین باغ میںپچھلے42 دنوں سے سی اے اے ‘ این آرسی او راین پی آر کے خلاف احتجاجی دھرنا جاری ہے جس کی قیادت مقامی خواتین کررہی ہیں‘ جنھوں نے ماضی میں کبھی کسی احتجاج میںنہ تو حصہ لیاتھا اور نہ ہی کبھی کسی احتجاج مظاہر ے کو قریب سے دیکھا تھا۔ مگر آج شاہین باغ سارے ملک کے ایک مثال بناہوا ہے ‘ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میںشدت پیدا کرنے کے لئے شاہین باغ کو مثال بناکر پیش کیاجارہا ہے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبہ پر پولیس کی بربریت کے خلاف جو مائیں اور بہنیں سڑکوں پر اتری تھیں ‘ ان ہی بہنوں نے ملک کے سکیولر اقدار کو بچانے کا بیڑا اٹھاتے ہوئے شاہین باغ کو ہندوستان میںایک او رانقلاب کا مرکز بنادیا ہے۔ ملک کی بیشتر ریاستوں میں شاہین باغ کے طرز پر خواتین سڑکوں پر اتر گئی ہیں۔لکھنو کے کلاک ٹائور‘ کلکتہ سرکس میدان‘ کے علاوہ ‘ بہار ‘ مہارشٹرا او رملک کے دیگر حصوں میںشاہین باغ کی طرح ہی احتجاجی مظاہرے انجام دئے جارہے ہیں۔ شاہین باغ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میںتمام عمر کی عورتیں ‘ لڑکیاں شامل ہیں او ران میںمسلمان بھی ہیں ‘ ہندو بھی ہیں ‘ سکھ او رعیسائی عورتیں بھی شامل ہیں۔ شاہین باغ کا احتجاج نہ صرف منفرد ہے بلکہ کڑکڑتی سردی کی رات میںمعمرخواتین اور معصوم بچوں کی اس احتجاج میں شمولیت فرقہ پرستوں کو ہوش کے ناخن کاٹنے پر مجبورکردیاہے۔ احتجاج میںشامل خواتین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل ‘ اور فرقہ پرستوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے مقصد سے سڑک پر اتری ہیں۔ شاہین باغ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک بہترین مثال کے طور پر بھی منظرعام پر آیاہے ۔ احتجاج کے دوران یہاں پر مظاہرین کے قرآن خوانی کے ساتھ بھجن ‘ کیرتن اوربائیبل کا مطالعہ بھی کروایا‘ مظاہرین خواتین میں کئی ایسی بھی ہیں جو ہر روز یہاں پر نفل روزوں کے ساتھ بارگاہ رب العزت میںسی اے اے ‘ این آرسی اور این پی آر جیسے سیاہ قوانین سے مسلمانوں کو راحت کی دعائیںمانگ رہے ہیں۔ اس احتجاج میںشامل ایسی کئی خواتین ہیں جو دن بھر دفاتر میں کام کرتی ہیں‘ شام کو گھر واپس لوٹنے کے بعد گھر کے دوسرے ممبران کے لئے کھانا تیار کرتی ہیں اورٹفن کے ہمراہ شاہین باغ پہنچ جاتی ہیںتاکہ وہاں پر پہلے سے موجود خواتین کا حوصلہ بڑھاسکیں۔ حالانکہ مخالفین نے شاہین باغ کے مظاہرین کے متعلق کئی الزامات بھی لگائے ‘ اس کے باوجود وہ اپنے احتجاج سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ دہلی کی کڑکڑتی سردی میںایک گھنٹہ کھلے آسمان کے نیچے بیٹھنا مشکل ہے مگر پچھلے 42دنوں سے شاہین باغ کی خواتین او رلڑکیوں کی کثیرتعداد چوبیس گھنٹے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ جب عوریں اگر عدل وانصاف کو یقینی بنانے کے لئے سڑکوں پر اترتی ہیں تو دنیا کی ایسی کوئی طاقت نہیںجو ان کے حوصلوں کو کمزورکرسکے۔جب شاہین باغ میںاحتجاج کرنے والی خواتین کے متعلق یہ کہاگیا کہ وہ پانچ پانچ سو روپئے اور بریانی کے عوض احتجاجی دھرنے میںبیٹھیں ہیں تو مظاہرین میں سے کئی خواتین اس طرح کی افواہیںپھیلانے والوں سے کہاکہ وہ دو ہزار روپئے فی کس ان سے لے لیں اور اپنے گھر کی خواتین کو دھرنے میں شامل کریں۔ ملک کی سرکردہ شخصیات بھی شاہین باغ میںاحتجاجی دھرنے پر بیٹھی ہوئی خواتین سے اظہار یگانگت پیش کرنے کے لئے وہاں پر پہنچنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ممتاز ٹیلی ویثرن اینکر روایش کمار‘ کے علاوہ بھیم آرمی کے سربراہ چندرشیکھر آزاد‘ جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صد ر کنہیا کمار‘ سابق جے این یو اسٹوڈنٹ لیڈر عمر خالد‘ ممتاز فلمی اداکارہ سواربھاسکر‘ ایکٹر ذیشان ایوب‘ شبانہ اعظمی ‘ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور‘ کے بشمول کئی ایسی شخصیتیں ہیں جو شاہین باغ پہنچ کر وہاں کی خواتین سے اظہاریگانگت کیاہے۔ شاہین باغ میںاحتجاجی دھرنے پر بیٹھی ہوئی خواتین نے ملک میںظلم وستم ‘ جبرو استبدار کے خلاف زبان کھولنے کا حوصلہ دیا ہے۔ یہ وہ عظیم تاریخی احتجاجی مرکز ہے جہاں کی خواتین نے وزیراعظم نریندر مودی کو تک چائے کی دعوت دے کر مدعو کیاہے تاکہ وہ شاہین باغ ائیں اور دیکھیں کہ کس طرح مظاہرین جس میں خواتین کی اکثریت ہے سی اے اے ‘ این آرسی او راین پی آر کے خلاف متحد ہوکر حکومت سے مانگ کررہے ہیں کہ ملک کے سکیولر اقدار کو نقصان پہنچانے والے سیاہ قوانین سے دستبرداری اختیار کی جائے ۔ ہندوستان میںاب ایسی کوئی ریاست نہیںہے جہاں پر شاہین باغ کو مثال بناکر اپنے حقوق کی لڑائی میںخواتین نے احتجاجی مظاہرے کا راستہ اختیار کیاہے ۔ سلام ہے شاہین باغ کی خواتین کو جنھوں نے پولیس کے جبر‘ انتظامیہ کے ظلم او رحکمرانوں کی بربریت کے خوف کابالائے طاق رکھا او راپنے اہل وعیال کو چھوڑ کر ‘ آنے والی نسلوں کو خوف کے سایہ سے دور رکھنے اور فرقہ پرست طاقتوں کے ناپاک عزائم کو چکنا چور کرنے کے مقصد سے دہلی کی سرد راتوں میںشب روز سی اے اے ‘ این آرسی او راین پی آر سے دستبرداری کا مطالبہ کررہی ہیں۔تحریکوں کی کامیابی مظاہرین کے حوصلوں پر مشتمل ہوگی ہے اور شاہین باغ کے خواتین کے پرامن احتجاج کو دیکھنے کے بعد آج ساری دنیا ان کی معترف ہوگئی ہے۔ اس احتجاج میںمعصوم بچوں کو اپنے ساتھ لے کر مائیں بھی مظاہرے میںشامل ہیں‘ جو اپنے آپ میںایک بڑا کارنامہ ہے۔ ہم ایک ایسے دور سے گذر رہے ہیںجس میںلوگ اپنے آرام واسائش سے کسی قسم کا سمجھوتا کرنے کے لئے تیار نہیںہیں مگر نئی دہلی کے شاہین باغ کی خواتین نے اس جدوجہد کو فرقہ طاقتوں کے خلاف دوسری جنگ آزادی کا نام دے کر یہ ثابت کردیاہے کہ ملک کے سکیولر اقدار کی حفاظت ان کی ترجیحات میںشامل ہے۔ آج شاہین باغ کے دھرنے میںشامل خواتین کو دیکھ کر ملک کے دیگر ریاستوں کی خواتین یہ کہنے پر مجبورہوگئی ہیںکہ
تیرے غرور کو جلائے گی وہ آگ ہوں
آکر دیکھ مجھے ‘ میںشاہین باغ ہوں