اپنے پیغمبر کا سبق فکر و تڑپ بھول گئے

   

ڈاکٹر محمد سراج الرحمن فاروقی
ہندوستان کو آزاد ہوئے 74 سال گذر گئے، ابھی ہم 72 واں یوم جمہوریہ منانے جارہے ہیں، دستور ہند مرتب کرنے والے بی آر امبیڈکر کو انتخاب میں شکست کے بعد بنگال سے مقابلہ کرواکر کامیابی دلاکر انہیں پارلیمنٹ میں بھیجنے والی مسلم اقلیت آزادی کے پون صدی گذرنے کے بعد بھی عجیب و غریب کسمپرسی نت نئے قوانین و آرڈیننس جیسے ہتھکنڈوں کے ذریعہ مصیبت کے پہاڑوں کے تلے روندے جارہی ہے ، رعب و دبدبہ جماکر خوف و حراس کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے بلکہ چند ریاستیں جن میں اترپردیش سرفہرست ہے آسام، مدھیہ پردیش، کرناٹک، گجرات، کشمیر کی حکومتیں صرف واحد ایجنڈہ بنائی ہوئی ہیں کہ کس طرح مسلم اقلیتی طبقہ کو خائف کیا جائے۔ لو جہاد کے قانون کی آڑ میں اور گائے سرکشا کے بہانے سینکڑوں مسلم نوجوانوں کو حراست میں لیا جاکر اذیتیں دے رہی ہیں۔ گاؤکشی، ذبیحہ گائے کا بہانہ بناکر معصوم لوگوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آزادی کی تحریک میں مسلم امت کو محنت، قربانی (جانی و مالی) جس نے انگریزوں کے حوصلے پست کئے اور خلافت تحریک کے بانی مولانا محمد علی جوہر ؒ جنہوں نے کرم چند گاندھی کو مہاتما بنایا، پنڈت نہرو کو انڈین نیشنل کانگریس کا سکریٹری بنایا ایسے بیسیوں مثالیں ہیں جو انگریزوں کو ہندوستان، قبل از وقت چھوڑنے پر مجبور کیا فراموش کردیا گیا۔ ورنہ انگریز تو 1948 میں جانے کا ارادہ رکھتے تھے، مندرجہ بالا تحریک، پھر عدم تعاون Civil disobediance نے انہیں 15 اگست 1947 کو اپنے آپ کو سمیٹنے پر مجبور کردیا۔ اس مسلم اقلیت کے ساتھ نازیبا، ناروا، اذیت ناک برتاؤ ابھی بھی ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ آج بھی سیکولر ذہنیت رکھنے والے سینکڑوں بیوروکریٹس، دانشور، فنکار، ادیب، اخبارات، ذمہ دار اس کربناک مخالف مسلم پالیسیوں کی سخت مخالفت کررہے ہیں بعض برسر خدمت آفیسرس IPS، IAS تو بطور احتجاج اپنی خدمات سے مستعفی بھی ہو رہے ہیں۔ وہ احتجاجاً اپنے انعامات، ایوارڈس، میڈلس حکومت کو لوٹا رہے ہیں ۔
جس آزاد ہندوستان میں آج بھی بنیادی طبی سہولتیں نہ ہونے سے امبولنس وقت پر نہ ملنے سے حاملہ عورتیں، معصوم بچے فوت ہو رہے ہیں۔ آکسیجن نہ ملنے سے سینکڑوں، ہزاروں مریض دم توڑ رہے ہیں، ابھی سڑکیں ہماری کھڈا بنی ہوئی ہے۔ اگر کچھ بارش تیز ہو جائے تو ہر جگہ سیلاب سے اسکولس بند، سینکڑوں جانیں تلف ہوتی ہیں۔ کسان خودکشی کررہے ہیں، بے روزگاری آسمانوں کو چھو رہی ہے لیکن ان پر سرکار توجہ نہیں دیتی اور ایک ہزار کروڑ کی لاگت سے سنسد (پارلیمنٹ) تعمیر کررہی ہے، اس دیش کے عوام کا اللہ ہی محافظ ہے۔ دیش کے حالات تو یہ ہے لیکن امت مسلمہ کی غفلت کچھ کم نہیں ہے۔ اب ہماری امت مسلمہ کی خود بے حس ہے، بددین، دین سے دور ہو رہی ہے۔

اتفاق سے 31 دسمبر کو عقل داڈھ کی تکلیف کو لیکر میرے دواخانہ میں مسلم علاقے کے متعین پولیس سرکل انسپکٹرس (لا اینڈآرڈر اور ٹرافک) آئے جب علاج مکمل ہوا فوراً کچھ راحت ملی تو ٹریفک انسپکٹر سے میں Drink & Drive کی مہم پر کچھ پوچھنے کی کوشش بھی کررہا تھا، وہ کہنے لگے ڈاکٹر سراج میں 12 سال پہلے اسی علاقہ کا سب انسپکٹر تھا۔ شراب کے خلاف مہم میں ہم راتوں میں روڈ پر آلہ لے کر ٹھہرتے تو ہمیں ہدایت دی جاتی اور ہم دیکھتے بھی تھے کہ کوئی مسلمان ہوتا، چہرے سے مسلم نظر آتا تو ہم اس کی گاڑی کو نہیں روکتے۔ گاڑی پر تسبیح لٹکتی تو ہم چیک نہیں کرتے تھے ہم کو یہ یقین رہتا کہ مسلم شراب نوشی نہیں کرتا لیکن آج میں اسی مسلم ایریا میں انسپکٹر بن کر آیا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ اکثر مسلم نوجوان کسی نہ کسی درجہ میں شراب نوشی میں ملوث ہے۔ یہ کہنا ہوا وہ مسکرا بھی دیا اور افسوس بھی کرنے لگا۔ نئے سال کے موقع پر ہم نے بہت زیادہ ان کے خلاف کیسیس بک کئے ہیں۔ اسٹیشن ہاوز آفیسر نے بھی مسلم نوجوانوں کی بے راہ روی، دھوکہ، چوری، غبن پر کچھ واقعات بیان کئے جو ناقابل بیان ہیں۔
وہ امت مسلمہ جو ساری انسانیت کی رہبری، دین اسلام کی علمبرداری کا پرچم تھامے بھیجی گئی، وہی انسانیت سوز حرکات کو مرتکب ہو رہے ہے، جب درد مندان ملت یہ حالات دیکھتے ہیں تو بے چین و بے قرار ہو کر ان کے سینے ہونک اٹھتی ہیں۔ بقول علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے ۔
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن!