اپوزیشن ‘ اتحاد ‘ امکانات اور اختلافات

   

نیا لباس، حقیقت بدل نہیں سکتا
مگر یہ راز فقط آئینہ بتاتا ہے
جس طرح ملک میں ہر گذرتا دن آئندہ پارلیمانی انتخابات کا وقت قریب لاتا جا رہا ہے اسی طرح ہر گذرتے دن کے ساتھ ملک میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے تعلق سے تبادلہ خیال بھی تیز ہوتا جا رہا ہے ۔ کئی گوشوں سے کئی طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ ہر گوشہ اپنے اپنے طور پر اپنے اپنے انداز میں قیاس آرائیوں میںمصروف ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں میں الگ سے انتشار کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے ۔ کبھی یہ امکان دکھائی دیتا ہے کہ اختلافات کو ختم کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتیں آئندہ انتخابات میں متحدہ طور پر سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ باہمی اختلافات اور اعتراضات کو بالائے طاق رکھنے کے امکانات کبھی پیدا ہوتے ہیں تو کبھی ان کے امکانات موہوم سے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کوئی لیڈر کسی امکان کا اظہار کرتا ہے تو کبھی دوسرا لیڈر اس امکان کو مسترد کردیتا ہے ۔ کبھی امکانات اچانک ہی مستحکم ہوجاتے ہیں تو کبھی اچانک ہی تمام امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔ ہر طرح کی صورتحال بدلتے دن کے ساتھ بدلتی جا رہی ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کیلئے خود یہ ضروری ہے کہ وہ بی جے پی سے مقابلہ کیلئے خود کو تیار کریں۔ ایک دوسرے سے اشتراک کیا جائے ۔ کہیں ایک دوسرے کی مدد کی جائے اور کہیں مدد لی جائے ۔ جب تک علاقائی اور دوسری جماعتیں اپنی اپنی ترجیحات پر نظر ثانی نہیں کریں گی اور بی جے پی کو شکست دینے کے ایک نکاتی ایجنڈہ پر متحد نہیں ہونگی ان میں اتحاد کے امکانات موہوم ہی ہوتے رہیں گے اور اس صورتحال کا بی جے پی ہی راست فائدہ اٹھاتی رہے گی ۔ بی جے پی کے پاس انتخابی مشنری ہے ‘ کارکنوں کی طاقت ہے ‘ میڈیا کی طاقت ہے اور دیگر وسائل بھی دستیاب ہیں۔ بی جے پی کے پاس حکمت عملی ہے اور منصوبے تیار ہیں۔ ان پر عمل بھی شروع ہوچکا ہے ۔ ہر ریاست اور ہر حلقہ کیلئے اس نے اچھی طرح سے تیاری کر رکھی ہے ۔ ایسے میں اگر اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد کے امکانات تقویت نہیں پاتے ہیں اور یہ جماعتیں ایک دوسرے کے قریب نہیں آتی ہیں تو پھر خود ان ہی جماعتوں کے انتخابی امکانات متاثر ہوسکتے ہیں۔
علاقائی اور دوسری جماعتوں میں جو اختلافات ہیں ان کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ بہت جلد ختم ہونے والے نہیں ہیں۔ ان اختلافات کو ختم کرنے کیلئے ان جماعتوں کو سیاسی عزم و حوصلے کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ جو اختلافات ختم نہ ہونے پائیں انہیں بالائے طاق رکھا جاسکتا ہے ۔ جن باتوں پر اتفاق رائے ہوسکتا ہے ان کو آگے بڑھایا جائے ۔ تمام جماعتوں کا ایک نظریاتی اتحاد بنایا جائے ۔ ان میں مختلف پہلووں کا احاطہ کرتے ہوئے منصوبے تیار کئے جائیں۔ اقل ترین مشترکہ پروگرام بنایا جائے ۔ عوام کے ساتھ اب تک ہونے والی نا انصافیوں کو موثر ڈھنگ سے پیش کرنے کی حکمت عملی بنائی جائے ۔ مستقبل کے منصوبوںکو پیش کرنے کی ترتیب بنائی جائے ۔ عوام کو اس جانب راغب کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ عوام سے رابطوں کو بحال کیا جائے ۔ بی جے پی کی جانب سے ہونے والے پروپگنڈہ کے اثرات کو کم کرنے اور عوام کو اس سے بچانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ باہمی اختلافات کو پس پشت ڈالنے کا خود میں حوصلہ پیدا کیا جائے ۔ میڈیا سے رجوع ہونے کی حکمت عملی بنائی جائے ۔ ان مسائل اور امور کو قطعیت دی جائے جن کو اٹھاتے ہوئے عوام کی توجہ حاصل کی جاسکتی ہے ۔ جب تک جامع حکمت عملی بنانے کا تہئیہ نہیں کیا جاتا اور اس کیلئے کوششیں نہیں کی جاتیں اس وقت تک محض چند جماعتوں کو ایک دائرہ میں شامل کرتے ہوئے اسے اپوزیشن اتحاد کا نام دیا جائے تو وہ کارگر ثابت نہیں ہوسکتا ۔
ملک میں ہر جماعت یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ ایک مخصوص نظریہ کی حامل ہے ۔ وہ سماجی تبدیلی کیلئے اپنے نظریات کو اہم قرار دیتی ہے ۔ ایسے میں اگر اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد ہوتا ہے تو ان تمام جماعتوں کے نظریاتی پہلووں کا بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہوگی ۔ علاقائی اہمیت کے حامل مسائل کو بھی اٹھانے اور اجاگر کرنے کیلئے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ اس حقیقت کو بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ آئندہ انتخابات کی تیاری کیلئے زیادہ وقت نہیں رہ گیا ہے ۔ جو منصوبے بنائے جائیں گے ان پر عمل آوری کیلئے بھی وقت درکار ہوگا ۔ ایسے میں اپوزیشن جماعتیں جتنی جلد ممکن ہوسکے اس اتحاد کو قطعیت دیتی ہیں تو یہ انہیںانتخابات کا سامنا کرنے میں معاون ہوسکتا ہے ۔