قومی اہمیت کے حامل سرحدی کشیدگی کے مسئلہ پر اپوزیشن جماعتوں میں اتحاد کی ایک جھلک آج دیکھنے میں آئی ۔ اروناچل پردیش میں سرحدات پر چین کے ساتھ کشیدگی اور فوجیوں میں جھڑپ کی اطلاعات پر کانگریس پارٹی چاہتی ہے کہ پارلیمنٹ میں مباحث کئے جائیں۔ اپوزیشن کو اس پر اظہار خیال کا موقع دیا جائے اور اپوزیشن کی تشویش کا حکومت کی جانب سے ایوان میں جواب دیا جائے ۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے کل اس مسئلہ پر ایوان میں بیان دیا گیا اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ہندوستانی مسلح افواج نے چین کی جانب سے در اندازی اور زمین ہتھیانے کی کوششوں کو پوری طاقت سے ناکام بنادیا گیا ۔ اپوزیشن جماعتوں کا تاہم اصرار ہے کہ حکومت کو صرف بیان پر اکتفاء نہیں کرنا چاہئے بلکہ چونکہ پارلیمنٹ کا اجلاس چل رہا ہے ایسے میں حکومت کو ایوان میں مباحث کروانے چاہئیں۔ حکومت کی جانب سے بیان دیتے ہوئے کسی طرح کے مباحث سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ کانگریس نے اس مسئلہ پر کل بھی راجیہ سبھا سے واک آوٹ کیا تھا اور آج بھی دوسری اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اس نے ایوان سے واک آوٹ کردیا ۔ اس مسئلہ پر تاہم اپوزیشن جماعتوں میں اتحاد کی ایک جھلک دیکھنے میںآئی ہے ۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر و کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے اس مسئلہ پر اپوزیشن جماعتوں کا ایک اجلاس طلب کیا تھا جس میں تقریبا 12 جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی ۔ یہ اپوزیشن اتحاد کی ایک جھلک تھی جو کبھی کبھار ہی دیکھنے میںآتی ہے ۔ا تفاق اور دلچسپی کی بات یہ بھی ہے کہ اس اجلاس میں عام آدمی پارٹی اور بھارت راشٹرا سمیتی کے قائدین نے بھی شرکت کی ۔ یہ اس اجلاس کا ایک منفرد پہلو کہا جاسکتا ہے کیونکہ اب تک اپوزیشن اتحاد کی جتنی بھی کوششیں کی گئی ہیں ان میں اگر کانگریس شامل رہی تو عام آدمی پارٹی اور بی آر ایس نے شرکت نہیں کی تھی ۔ دونوں ہی جماعتوں کی جانب سے کانگریس کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے اور اس سے دوری اختیار کرنے کے فیصلے کے اعلان کا سلسلہ جاری رہا تھا ۔ دونوں جماعتیں اس پر اٹل بھی تھیں ۔
اب ان جماعتوں کے موقف میں ایسا لگتا ہے کہ لچک آئی ہے تاہم یہ لچک کب تک برقرار رہتی ہے یہ کہنا قبل از وقت ہی ہوگا ۔ ملک میں جس طرح کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو سبوتاج کرنے کی کوششیں وقفے وقفے سے ہوتی رہتی ہیں ان میں اگر آج کے اجلاس کو ایک مثبت پہل قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا تاہم یہ صرف ابتداء ہے اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سلسلہ کب تک برقرار رہ سکتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے موقف میں وقفہ وقفہ سے تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ جس طرح عام آدمی پارٹی نے گجرات اور ہماچل پردیش میں انتخابی مقابلہ کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر بی جے پی کی مدد کی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا نہیں جاسکتا کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں یہ پارٹی پوری شدت کے ساتھ حصہ لے گی ۔ اس کے علاوہ اس کے عزائم پر بھی دوسری جماعتوںکیلئے شکوک ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح جہاں تک تلنگانہ راشٹرا سمیتی سے بھارت راشٹرا سمیتی میں تبدیل ہونے والی کے چندر شیکھر راؤ کی جماعت کا سوال ہے تو یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ یہ پارٹی بھی تلنگانہ میں کانگریس کے صفایہ میں شامل رہی ہے اور بی جے پی کی پارلیمنٹ میں کئی مواقع پر اس نے راست یا بالواسطہ طور پر تائید کی ہے ۔ تاہم اب بی آر ایس اور بی جے پی میں کانٹے کی ٹکر چل رہی ہے تاہم پارٹی ہمیشہ ہی کانگریس کے ساتھ کسی بھی محاذ میں شامل ہونے یا اس کا حصہ بننے سے گریز ہی کرتی رہی ہے ۔ آگے پارٹی کا کیا موقف ہوگا یہ کہا نہیںجاسکتا ۔
اب جبکہ چین کے ساتھ کشیدگی اور سرحد پر جھڑپوں کی اطلاع کے بعد اگر اپوزیشن جماعتوں نے ایک مشترکہ اجلاس طلب کیا ہے توا س سے ایک پیام دیا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن میں اہمیت کے حامل مسائل پر اتحاد ہوسکتا ہے ۔ اس امکان کو مثبت پہلو کے طور پر لیتے ہوئے انہیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ اپوزیشن قائدین یہ اس حقیقت کو سمجھنے اور قبول کرنے کی ضرورت ہے کہ جب تک ان کی صفوں میںاتحاد نہیںہوگا اس وقت تک بی جے پی سے تنہا مقابلہ کرنا ان کیلئے آسان نہیں ہوگا ۔ بی جے پی کی سیاسی طاقت بہت زیادہ ہے ۔ ایسے میں آج کے اجلاس کو مثبت پہل سمجھتے ہوئے اس کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔