جلوہ جلوہ نظر نظر بدنام
زندگی اور اِس قدر بدنام
اپوزیشن اور مستحکم جمہوریت
ہندوستان میں ایک مستحکم جمہوریت کیلئے اپوزیشن پارٹیوں کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ مرکز میں جب سے نریندر مودی زیرقیادت حکومت آئی ہے اپوزیشن پارٹیوں کی قوت گویائی بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سلب کرلی گئی ہے۔ سب سے بڑی اپوزیشن کے موقف سے محروم پارٹیوں کو باہمی اتحاد کے لئے بھی آپسی رسہ کشی میں مبتلا دیکھا جارہا ہے۔ 2004ء میں کانگریس زیرقیادت جس یو پی اے کو تشکیل دیا گیا تھا، اس میں غیر بی جے پی، غیرفرقہ پرست پارٹیاں شامل تھیں۔ اب کانگریس ہی اپنی قیادت کیلئے فکرمند ہے تو یو پی اے کو چیرپرسن کی تلاش بھی مشکل ہوجائے گی۔ سیاسی پارٹیوں کی عوامی رابطہ میں کمی سے بھی زوال شروع ہوجاتا ہے۔ ہر پارٹی کو جو انتخابات میں کمزور مظاہرہ کرتی ہے، اپنی ناکامی کے بعد عوامی رابطے کو ازسرنو زندہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن کانگریس کی قیادت خود اپنے وجود کو لیکر فکرمند ہے اور پارٹی کی قیادت سنبھالنے کا مسئلہ تعطل کا شکار ہوجائے تو ہر ریاست، ضلع، منڈل، گاؤں میں پارٹی کی شاخ کے قائدین اور کارکنوں کی حوصلہ افزائی کا مسئلہ جوں کا توں رہ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج قومی سطح پر اپوزیشن پارٹیوں کو اپنے استحکام کیلئے فکرمند ہونا پڑ رہا ہے۔ ویسے ہندوستانی سیاست میں کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ سیاست میں کب کیا ہوگا یہ کہا نہیں جاسکتا۔ تاہم شردپوار ایک کہنہ مشق تجربہ کار سیاستداں ہیں لیکن 80 سالہ شردپوار کی صحت سے ٹتعلق بعض قیاس آرائیوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ قومی سطح پر سیاسی اتحاد کی قیادت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عوام کی نبض کو سمجھتے ہیں۔ اگر یو پی اے کو متحرک کرنا ہے تو حرکیاتی قیادت کو یہ ذمہ داری دی جانی چاہئے۔ کانگریس کو اپنا نیا صدر بھی منتخب کرنا ہے۔ آئندہ سال کے اوائل میں یہ انتخاب ہوجانا چاہئے۔ راہول گاندھی نے کانگریس صدر کا عہدہ سنبھالنے سے انکار کردیا ہے۔ اس سے صاف ہوجاتا ہیکہ پارٹی کو بہت جلد نیا صدر ملے گا۔ سابق کی طرح سونیا گاندھی کانگریس صدر کی حیثیت سے مستعفی ہونے کے بعد یو پی اے چیرپرسن کی حیثیت سے برقرار تھیں لیکن اس مرتبہ صورتحال یکسر برعکس ہے۔ یو پی اے میں شامل پارٹیوں میں این سی پی کے علاوہ مغربی بنگال کی ممتابنرجی پارٹی ترنمول کانگریس اور ٹاملناڈو کی ڈی ایم کے پارٹی لیڈر ایم کے اسٹالین بھی یو پی اے کی قیادت کیلئے دعویدار ہوسکتے ہیں لیکن ان قائدین کو بھی بی جے پی کی وجہ سے اپنی سیاسی جدوجہد میں بھی سیاسی سمت کا تعین کرنے میں مشکل آرہی ہے۔ کانگریس کے نوجوان قائدین جیسے راہول گاندھی نے اپنی ہی پارٹی کو کمزور کردیا ہے تو وہ یو پی اے کو مضبوط بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ اس تناظر میں اگر ہر سیکولر پارٹی بی جے پی کے خلاف مضبوط اتحاد بنانے میں ناکام ہوتی ہے تو پھر بی جے پی بھی اپنی سیاسی بالادستی کے ساتھ راج کرے گی اور اس ملک کی جمہوریت کمزور ہوجائے گی۔ بی جے پی حکومت کی اہلیت اور قابلیت اور کارکردگی سے واقف عوام کو افسوس اس بات کا ہے کہ اب ملک میں بی جے پی کے مقابل متبادل سیاسی طاقت یا سیاسی لیڈر نہیں ہے جو یو پی اے کی قیادت کرتے ہوئے اس اتحاد کو طاقت بخشے گا۔ بی جے پی نے سب سے پہلے جو کام کیا ہے وہ سیاسی پارٹیو ںکے اتحاد کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو کمزور کرکے مضبوط قیادتیں تیار کرنے میں کامیاب بی جے پی دن بہ دن قوی ہورہی ہے۔ بی جے پی کے اندر سیاسی طاقت نے اپنی خوب نشوونما کرلی ہے اور دن بہ دن پروان بھی چڑھ رہی ہے لیکن اپوزیشن کانگریس اتحاد کو اپنے بہتر مستقبل کے لئے اچھے لیڈر کو تلاش کرنے میں تاخیر ہورہی ہے اگر اسی طرح کا تعطل برقرار رہا تو پھر کانگریس کو اپنی قیادت کیلئے متبادل لیڈر کی تلاش تک مزید زوال کا شکار ہونا پڑے گا۔ سونیا گاندھی کی جگہ کانگریس کو ایک حرکیاتی نوجوان قیادت کے ساتھ ساتھ دوراندیش اور معاملہ فہم لیڈر کی ضرورت ہے تاکہ آج مرکز کی چالاک قیادت کی سازشوں کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوسکے۔
کرناٹک کا انسداد گاؤکشی قانون
ہندوستانی شہریوں کو کیا کھانا چاہئے کیا نہیں اس بات کا تعین حکومت وقت کرنے لگے تو آنے والے برسوں میں ہندوستان کے مختلف علاقوں کے عوام کو مختلف عنوانات سے پریشان کیا جائے گا۔ کرناٹک کے نئے انسداد گاؤکشی قانون کو مہاراشٹرا کے بیف پر پابندی قانون سے مزید سخت اور خطرناک بنادیا گیا ہے۔ کرناٹک کی بی جے پی حکومت نے جن مویشیوں کو ذبح کرنے پر پابندی لگائی ہے ان میں گائے کے ساتھ گائے کا بچھڑا، بیل اور پاڑا بھی شامل ہیں۔ البتہ بھینس اور بھینسہ کو دبح کیا جاسکتا ہے جس کی عمر 13 سال سے زائد ہونی چاہئے۔ خلاف ورزی پر 50 تا ایک لاکھ روپئے اور 3 تا 7 سال کی جیل ہوگی۔ اس قانون میں پولیس کو پورا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ذبح کیلئے رکھے جانے والے جانوروں کی جانچ کرے۔ کرناٹک کے موجودہ قانون میں بیل، پاڑے نر بھینس یا مادہ بھینس کو ذبح کرنے کی اجازت تھی اب یدی یورپا حکومت نے بیل کو ذبح کرنے پر بھی پابندی لگادی ہے۔ بہرحال بی جے پی حکومت اپنے فیصلوں اور قوانین کے ذریعہ ایک طرف کسانوں کو نقصان پہنچارہی ہے انہیں پریشان کیا جارہا ہے تو دوسری طرف شہریوں کی آزادی کو سلب کرلیا جارہا ہے ۔ بی جے پی صرف اپنے ووٹ بنک کیلئے تمام شہریوں کو من مانی قوانین کے ذریعہ ہراساں و پریشان کررہی ہے جو قابل مذمت ہے جبکہ ہندوستان بیف برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور بیف کے کاروبار میں مبینہ طور پر بی جے پی کے ہی لوگ سب سے زیادہ سرگرم ہیں۔ بہرحال بی جے پی اس ملک کے دستور کی دھجیاں اڑانے کا سلسلہ ختم نہیں کررہی ہے اور عوام بھی مجرمانہ طور پر خاموشی اختیار کررہے ہیں۔ دستور کے آرٹیکل 19 میں دیئے گئے حقوق کو چھین لیئے جانے کے باوجود عوام خاموش ہیں تو پھر آگے بہت کچھ سختیاں برداشت کرنے کیلئے تیار رہنا پڑے گا۔
