اپوزیشن قائدین کا احتجاج اور گرفتاری

   

جمہوریت بھی طرفہ تماشہ کا کس قدر
لوح وقلم کی جان ید اہرمن میں ہے
الیکشن کمیشن کے خلاف اپوزیشن انڈیا اتحاد کی جماعتوں نے زبردست احتجاج شروع کردیا ہے اور وہ کمیشن سے سوال کرنے لگے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کمیشن ان سوالات کا جواب دے۔ الیکشن کمیشن تاہم حکومت کی تائید و حمایت کے ساتھ کسی طرح کا جواب دینے کو تیار نظر نہیں آتا اور محض ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے حقیقی سوال اور مسئلہ سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے ۔ بہار میں ووٹر لسٹ پر خصوصی نظرثانی کی مہم اور پھر ملک بھر میں ووٹر لسٹ می دھوکہ اور الٹ پھیر کے خلاف انڈیا اتحاد کی جماعتوں نے آج پارلیمنٹ ہاوز سے الیکشن کمیشن کے دفتر تک مارچ کا اعلان کیا تھا ۔ آج صبح جیسے ہی ان ارکان پارلیمنٹ نے اپنا مارچ شروع کیا اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتے ہوئے روک دیا گیا ۔ اپوزیشن ارکان جب اپنے مارچ کو جاری رکھنے پر مصر رہے تو ان کے خلاف ایک طرح سے طاقت کا استعمال کیا گیا ۔ انہیں گرفتا رکرلیا گیا اور بسوں میں بٹھا کر پولیس اسٹیشن کو منتقل کردیا گیا ۔ جن قائدین کو گرفتار کیا گیا ان یں قائد اپوزیشن راہول گاندھی ‘ کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی ‘ سماجوادی پارٹی کی ڈمپل یادو اور دوسرے کئی ارکان شامل تھا ۔ دہلی پولیس نے وہ رویہ اختیار کیا جیسے یہ ملک کے ذمہ دار ارکان پارلیمنٹ نہیں بلکہ جرائم پیشہ افراد ہوں۔ یہ احتجاج ایک دستوری حق ہے اور ملک میں انتخابات کو منصفانہ اور غیرجانبدار بنانے کیلئے یہ احتجاج شروع کیا گیا تھا ۔ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ۔ اسی ذمہ داری کا احساس دلانے پر اس طرح کی کارروائی کی گئی اور انہیں گرفتار کرلیا گیا ۔ یہ الیکشن کمیشن کا ایک طرح سے فرار ہے کیونکہ وہ سوالات کے جواب نہیں دے رہا ہے اور نہ ہی دھاندلیوں اور الٹ پھیر کے جو ثبوت پیش کئے گئے ہیں ان کا جائزہ لینے کو تیار ہے ۔ صرف طاقت کی زبان استعمال کی جا رہی ہے اور اپنے اختیارات کا حوالہ دیتے ہوئے کسی بھی طرح کے سوال کا جواب نہیں دیا جا رہا ہے ۔ کسی الزام کی تحقیق نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی وہ مواد فراہم کیا جا رہا ہے جس کی مانگ کی جا رہی ہے ۔ اس سے صورتحال اور بھی پیچیدہ ہونے لگی ہے ۔
یہ ایک اٹل حقیقت بنتی جا رہی ہے کہ ملک کی ووٹر لسٹ میں خامیاں ہیں۔ یہ خامیاں عمدا کی گئی ہیں یا الیکشن کمیشن کی نا اہلی ہے یہ وقت ہی بتا پائے گا تاہم یہ حقیقت ہے کہ ملک میں انتخابی نظام متاثر ہو رہا ہے ۔ اس کی اہمیت اور ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے ۔ الیکشن کمیشن ایک طرف بہار میں تو فہرست میں لاکھوں نام غیر ضروری ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں حذف کرنے میں لگا ہوا ہے تو دوسری طرف کانگریس کی جانب سے لاکھوں ناموں کے فرضی ہونے کے ثبوت کو قبول کرنے تیار نہیں ہے ۔ یہ دوہرے معیارات کمیشن کی ساکھ کو داؤ پر لگا رہے ہیں اور اس کی غیرجانبداری پر سوال ہونے لگے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بہار میں سینئر بی جے پی لیڈر و ڈپٹی چیف منسٹر کے پاس تک بھی دو الگ الگ اسمبلی حلقہ جات میں درج دو الگ الگ ووٹر شناختی کارڈز موجود ہیں۔ اس کا خود کمیشن نے بھی ایک طرح سے اعتراف کرتے ہوئے ڈپٹی چیف منسٹر بہار کو نوٹس جاری کردی ہے ۔ یہ نوٹس اور ڈپٹی چیف منسٹر کے پاس دو ووٹر شناختی کارڈز کا ہونا الیکشن کمیشن کی نا اہلی کو ثابت کرتا ہے ۔ الیکشن کمیشن آج کے ترقی یافتہ ڈیجیٹل دور میں ڈیجیٹل فہرست اپوزیشن کو فراہم کرنے تیار نہیں ہے اور جو فرضی اور ڈپلیکیٹ ووٹرس ہیں ان کو ٹکنالوجی کی مدد سے چند دن میں حذف کیا جاسکتا ہے ۔ سارا ڈاٹا عوام کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے اور ایسا کیا جانا چاہئے ۔ تاکہ عوام خود اپنا مشاہدہ کرتے ہوئے مطمئن ہوسکیں لیکن کمیشن ایسا کرنا نہیں چاہتا جس سے شکوک پیدا ہونے لگے ہیں۔
کانگریس قائد راہول گاندھی نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ووٹر لسٹ کے تعلق سے جو کچا چٹھا کھولا ہے وہ قابل تشویش ہے ۔ سارے ملک کے عوام اس تعلق سے فکرمند ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ گودی میڈیا کمیشن اور حکومت کی چاپلوسی میں اس انتہائی اہم ترین اور حساس مسئلہ پر توجہ دینے تیار نہیں ہے لیکن سارے ملک کے عوام اس مسئلہ پر بے چین ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ جو خامیاں ہیں اور جو دھاندلیاں ہوئی ہیں ان کو دور کیا جائے ۔ الیکشن کمیشن کو ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے ۔ اسے کسی کے دباؤ میں آئے بغیر خود اپنی ساکھ بحال کرنے کیلئے ان الزامات کی تحقیقات کرنی چاہئے اور ہٹ دھرمی والا رویہ ترک کرنا چاہئے ۔