اپوزیشن قائدین کی ملاقاتیں

   

شاید زمانہ میرے اشارے پہ اب چلے
آتی ہے اس خیال پہ اپنے ہنسی مجھے
آئندہ سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات کیلئے بی جے پی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے کی کوششوں کا گذشتہ چند ہفتے قبل آغاز ہوا تھا ۔ ملک کی بیشترا پوزیشن جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا چاہئے اور تمام جماعتوں کو مل کر ایک مشترکہ ایجنڈہ کے ساتھ انتخاب لڑنا چاہئے ۔ ان کوششوں کو کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی شاندار کامیابی تک ایک طرح سے سست روی سے آگے بڑھایا گیا تھا ۔ اب جبکہ کرناٹک میں کانگریس نے کامیابی حاصل کرلی اور وہاں اس کی حکومت قائم ہوچکی ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ کوششیں اب تیز ہونے لگی ہیں۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار اس سلسلہ میں سرگرم ہوگئے ہیں۔ وہ کرناٹک انتخابات سے قبل بھی کئی قائدین سے ملاقات کرچکے ہیں اور وہ دوبارہ سرگرم ہوتے ہوئے کئی قائدین سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ دوسرے مرحلہ میں ایک بار پھر نتیش کمار نے چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال ‘ کانگریس صدر ملکارجن کھرگے ‘ کانگریس لیڈر راہول گاندھی وغیرہ سے ملاقات کرچکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ تمام اپوزیشن قائدین کا ایک اجلاس بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں منعقد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس اجلاس میں تمام اپوزیشن جماعتوں کو ‘ جو بی جے پی کے خلاف اتحاد کے خواہاں ہیں ‘ مدعو کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ نتیش کمار اب تک کئی قائدین سے ملاقاتیں کرچکے ہیں اور یہ تاثر ہے کہ اب تک یہ صرف ملاقاتیں ہی ہیں اور ان میں کوئی خاص ایجنڈہ پیش نہیں ہوا ہے ۔ صرف ایک نکتہ پر سب متفق ہیں کہ بی جے پی کے خلاف اتحاد ہونا چاہئے تاہم یہ اتحاد کس بنیاد پر ہونا چاہئے ۔ کس ایجنڈہ پر ہونا چاہئے ۔ کیا اقل ترین مشترکہ پروگرام ہونا چاہئے اور تمام جماعتوں کے اتحاد کی کیا حکمت عملی ہونی چاہئے اس پر کوئی تبادلہ خیال نہیں ہوا ہے ۔ اپوزیشن قائدین کے مابین ملاقاتیں بھی ایک اچھی بات ہے اور اسے ایک بہتر شروعات کہا جاسکتا ہے لیکن ان کوششوں کو محض ملاقاتوں سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور کوئی جامع منصوبہ کی تیاری پر تمام قائدین کو توجہ مرکوز کرنی چاہئے ۔
نتیش کمار ابتداء سے پٹنہ میں ایک اجلاس منعقد کرنا چاہتے ہیں اور ان کی کوشش کو چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی اور سابق چیف منسٹر اترپردیش اکھیلیش یادو کی حمایت حاصل ہے ۔ کانگریس نے بھی اس طرح کے اجلاس کی مخالفت نہیں کی ہے ۔ کچھ دوسرے قائدین بھی اس اجلاس کے تعلق سے مثبت رویہ ہی رکھتے ہیں۔ اگر یہ اجلاس منعقد ہوتا ہے اور اس میں اپوزیشن قائدین شرکت کرتے ہیں تو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اس کا کوئی ایک مستحکم ایجنڈہ بھی ہو۔ اس طرح کے اجلاسوں کے ذریعہ جہاں باہمی اتفاق رائے کی مثال پیش کرنے کی ضرورت ہے وہیں اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہئے کہ یہ کوششیں محض ملاقات تک محدود نہیں ہیں بلکہ ایک ایجنڈہ اور ایک اقل ترین مشترکہ پروگرام کی تیاری بھی عمل میں لائی جا رہی ہے ۔ عوام کے سامنے بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کا متبادل پیش کرنے کی تیاری کی جانی چاہئے ۔ ایک ایسا منصوبہ تیار کرکے عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ عوام کوراغب کیا جاسکے ۔ عوام میں یہ احساس پیدا ہوسکے کہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد محض ان کی اپنی بقاء تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ عوامی مسائل کی یکسوئی کی بھی کوشش ہوگی اور عوام کو راحت پہونچانے کے ایجنڈہ کو آگے بڑھایا جائیگا ۔ ملک کی معاشی اور سماجی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے بھی منصوبہ تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کو عوام میںپیش کرتے ہوئے ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔
جب تک ایک ایجنڈہ اور ایک اقل ترین مشترکہ پروگرام تیار کرکے عوام کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا اس وقت تک ان کی تائید حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا ۔ یہ درست ہے کہ متحدہ اپوزیشن بی جے پی کیلئے ایک چیلنج بن سکتی ہے لیکن اپوزیشن کیلئے بھی یہ ایک چیلنج ہی ہوگا کہ سبھی ایک رائے پر متفق ہوجائیں۔ علاقائی جماعتوں کو ان کی اپنی ریاستوں میں اہمیت دیتے ہوئے ان کے نقطہ نظر کو بھی اہمیت دی جانی چاہئے ۔ ایک دوسرے کی تائید کے مسئلہ پر بھی اختلاف رائے کی گنجائش باقی نہیں رکھی جانی چاہئے اور بی جے پی کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کو بھی عوام میں پیش کرنے کی حکمت عملی بنائی جانی چاہئے ۔