اپوزیشن مکت پارلیمنٹ !!

   

ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی
اور مرکزی حکومت نے آج مزید درجنوں ارکان پارلیمنٹ کو دونوں ہی ایوانوں سے معطل کردیا ہے ۔ ان ارکان پارلیمنٹ کا قصور محض یہ تھا کہ وہ پارلیمنٹ سکیوریٹی میں ہوئی کوتاہی پر حکومت سے اور خاص طور پر وزیر داخلہ امیت شاہ سے جواب طلب کر رہے تھے ۔ دہلی پولیس کی یہ سنگین کوتاہی اور ناکامی تھی جس کے نتیجہ میں پارلیمنٹ کے اندر تک شرپسند عناصر پہونچ گئے تھے ۔ دہلی پولیس مرکزی وزارت داخلہ کے تحت آتی ہے اور یہ قلمدان امیت شاہ کے پاس ہے ۔ ایسے میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جمہوریت کے سب سے مقدس مقام پارلیمنٹ کی سکیوریٹی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان سے جواب طلب کیا جا رہا ہے ۔ ناکامی اور نقص کی تفصیل پوچھی جا رہی ہے ۔ اس پر ارکان کی تشویش کا جواب دینے یا پھر انہیں مطمئن کرنے اور حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کی وضاحت کرنے کی بجائے سوال پوچھنے والوں کو ایوان سے ہی نکال باہر کیا جا رہا ہے ۔ یہ آمریت کی ایک زندہ مثال ہے ۔ یہ در اصل جمہوری اور پارلیمانی فریضہ سے فرار ہے جو بی جے پی حکومت اختیار کر رہی ہے ۔ اس کے علاوہ اس طرح کے اقدامات اور ارکان کو ایوانوں سے معطل کرتے ہوئے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومت سے سوال پوچھنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ جمہوریت میں حکومت کو اپوزیشن اور ملک کے عوام کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات کے جواب دینے ہوتے ہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ وہ ملک کے عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ عوام ہی کے ووٹوں سے منتخب کردہ ان ہی کے نمائندے ہیں۔ ایسے میں حکومت کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ ارکان کی تشویش کا جواب دے ۔ ان کے سوالات کی سماعت کرے اور اپنے موقف کی وضاحت کرے ۔ یہ بھی واضح کرے کہ صورتحال سے نمٹنے میں حکومت کی جانبسے کیا کچھ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اس کی بجائے سوال پوچھنے والے ارکان کو ہی ایوان سے نکال باہر کردینا یہ افسوسناک رجحان ہے اور اس کی ماضی میںکوئی نظیر یا مثال نہیں ملتی ۔
حکومت جوابدہی کے امکان کو ہی ختم کرنا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب کچھ عرصہ پہلے جو سماجی جہد کار یا پھر حقیقی صحافی حکومت سے سوال کرتے اور اس کو نشانہ بناتے تو ان کے خلاف بھی کارروائیاں کی جاتیں ۔ انہیں مقدمات میں ماخوذ کرتے ہوئے جیلوں میں بند کیا جاتا رہا ہے ۔ ان کی ضمانتیں منظور ہونے نہیں دی گئیں۔ انہیں طویل وقتت تک سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا اور ان کے سوالوں کے جواب نہیں دئے گئے ۔ طلبا برادری بھی اگر حکومت سے سوال پوچھنے کی ہمت کر بیٹھتی تو اس کے قائدین کو بھی جیل بھیج دیا گیا ہے ۔ ایسی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ حکومت کی رائے اور اس کی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والوں کو ملک دشمن اور غدار تک قرار دینے سے گریز نہیںک یا گیا اور اب سلسلہ کو مزید طوالت دیتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ کا بھی اس میں احاطہ کیا جا رہا ہے ۔ اگر یہ ارکان ایوان میں حکومت سے سوال کرنے لگے ہیں اور ان کی ناکامیوں کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کا فریضہ ہے اس کے باوجود حکومت ان کے جواب نہیں دے رہی ہے ۔ حکومت اس کے برخلاف ان ارکان پارلیمنٹ کو ایوان سے معطل کر رہی ہے ۔ یہ حکومت کے اقتدار کے نشہ اور زعم کی زندہ مثال ہے ۔ یہ روایت ہندوستانی پارلیمانی جمہوریت کے اصولوں کے مغائر ہے اور اس سے ملک کے عوام کی جانب سے دئے گئے فیصلے اور ان کی رائے کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ حکومت کو اپنی روش پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
2014 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دینے والی بی جے پی اپنے اقدامات کے ذریعہ اپوزیشن مکت پارلیمنٹ کی سمت پیشرفت کر رہی ہے ۔ کانگریس کی مخالفت کے نام پر ملک کی کئی ریاستوں میں اپوزیشن جماعتوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ ان کے وجود کو ہی ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ ان کے ووٹ بینک کو متاثر کیا گیا ۔ اب پارلیمنٹ میں بھی اپوزیشن کی آواز کو دبانے اور ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پارلیمانی جمہوری اقدار کے مغائر ان فیصلوں پر حکومت کو نظر ثانی کرنی چاہئے اور اپوزیشن کی آواز کو سننے اور سمجھنے کیلئے خود کو تیار کرنا چاہئے کیونکہ ایسا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔