اپوزیشن کا اِتحاد ، وقت کی اہم ضرورت

   

غضفر علی خاں

اس وقت ہندوستان ایک ایسے دو راہے پر کھڑا ہے، جس پر چلنا انتہائی مشکل کام ہے، صدیوں کی آزمودہ روایات، سماجی اقدار، ملک کی مضبوط و مستحکم تہذیب و تمدن کو مجموعی طور پر انتشار و خلفشار گل شکار بنائی جارہی ہے، کوئی مانے یہ نہ مانے یہ بات اب حقیقت بن آئی ہے کہ جنت نشاں ہندوستان میں بعض طاقتیں دھرم یدھ کی طرف بڑھ رہی ہیں اور اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ سنگھ پریوار اور بی جے پی اس مذہبی تنازعہ کو انتہائی زور لگا رہے ہیں کہ بظاہر ملک کے زائد از 35% ووٹرس پر ان کا قبضہ ہوگیا ہے، ملک میں سکیولر طاقتیں تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سکیولر طاقتوں کی اب نشان بندی بھی نہیں کی جاسکتی۔ وہ لوگ جو کل تک سکیولر تھے۔ وہ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ سنگھ پریوار سے جڑتے چلے جارہے ہیں۔ ہندوستان کا سکیولر ڈھانچہ لڑ کھڑا گیا ہے جبکہ فرقہ پرست طاقتوں کا قلعہ مستحکم ہوتے جارہا ہے۔ اب بلاتکلف یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ دو علیحدہ علیحدہ فکری دھاروں میں تقسیم ہوگیا ہے اور فرقہ پرست طاقتیں اپنی کامیابیوں کو نہ صرف دشمن بنارہے ہیں بلکہ کامیابی کا یہ نشہ ان کو سرشار کررہا ہے۔ کوئی واضح بات نہیں کہی جاسکتی کہ آخر کیوں ملک کی سکیولر طاقتیں ایسی بدنما شکست خوردگی کا نمونہ بن رہی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ذکر کانگریس پارٹی کا آتا ہے جس نے آزادی کے بعد تقریباً پانچ دہوں تک ملک پر اپنی حکومت کی ، صرف پچھلے چند برسوں میں وہ کانگریس پارٹی جو عوام کی دل و دماغ پر حکومت کیا کرتی تھی، اچانک بے اثر ہونے لگی ہے۔ موجودہ حالات میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی کی حد تک تو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان تینوں کا عوام میں گہرا اثر و رسوخ رہا ہے لیکن اس کے بعد عوامی مقبولیت کا گراف برق رفتاری سے گرنے لگا اور آج یہ عالم ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ میں تین چوتھا ئی(¾) یا اس سے زیادہ اکثریت رکھنے والی کانگریس پارٹی 40 تا 50 ارکان پارلیمان پر مشتمل ہوگئی۔ اب اس کمی کو دُور کرنے کیلئے کانگریس پارٹی کو یہ سوچنا چاہئے کہ کس طرح سے عوام میں سکیولرازم کے نفاذ کو فروغ دیا جائے۔

دیکھنا یہ ہے کہ آیا آر ایس ایس اور ہندوتوا کا سحر اتنا گہرا اثر تو نہیں کر گیا ہے کہ عوام کو پھر سکیولرازم کی طرف راغب کرنا مشکل ہوجائے گا۔ خدا نہ کرے کہ صورتحال اتنی ابتر ہوگئی ہے کہ ہندوستان کا عام شہری صرف دھرم کے نام پر ووٹ دے رہا ہے۔ آج نہیں تو کل دھرم کے یہ سورما محسوس کرنے لگیں گے کہ سکیولرازم اور مذہبی رواداری ہندوستان میں دھرم کی وابستگی سے زیادہ مضبوط ہے، لیکن ایسا کرنے کیلئے کانگریس اور دیگر سکیولر پارٹیوں کو اپنے اپنے خول سے باہر نکلنا ہوگا، یہ سمجھنا پڑے گا کہ سکیولرازم کسی کی میراث نہیں ہے، خاص طور پر کانگریس سے یہ شکایت رہی ہے کہ وہ تحریک آزادی کے زمانے سے آج تک بھی خود کو رواداری اور مذہبی تحمل پسندی کا علمبردار سمجھتی رہی ہے حالانکہ ہندوستان میں یہ مثبت جذبات ہمیشہ رہے ہیں۔ کانگریس کا یہ کہنا غلط ہے کہ ملک کے سکیولرازم اس کے دَم سے قائم ہے۔ پچھلے چند برسوں کے دوران ایسے کئی سکیولر طاقتیں ملک کے سیاسی اُفق پر نمودار ہوتی رہیں جو دھرم کے نام پر سیاست کرنے والے خام ذہنوں کی مخالفت کرتی رہیںلیکن چونکہ یہ طاقتیں اس غلطی کا ارتکاب کرتی رہی ہیں کہ وہ علاقوں، ریاستوں تک ہی محدود رہے گی، اس سلسلے میں کئی مثالیں دی جاسکتی ہے۔ سب سے پہلے کمیونسٹ پارٹیوں کی بات ہونی چاہئے جبکہ یہ دو حصوں میں منقسم نہیں ہوئے تھے، وہ ملک کی پارلیمنٹ میں ایک ناقابل انکار طاقت و اپوزیشن بنی رہی لیکن ان پارٹیوں نے خود کو چند ریاستوں میں سے مغربی بنگال، کیرلا، تلنگانہ اور دیگر ریاستوں میں اپنا وجود برقرار رکھا جو فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دینے کیلئے ناکافی تھے۔ کانگریس البتہ ایک قومی سیاسی پارٹی بنی رہی، اس زعم کے تحت کے بہ جز اس کے رواداری، سکیولرازم کی نگہبانی کوئی اور پارٹی نہیں کرسکتی۔ ایک تو کانگریس نے یہ غلطی بھی کی کہ اس نے گاندھی نہرو خاندان کو اپنا مرکز اور معبود بنا دیا، کانگریس نہرو۔ گاندھی کے طلسم سے خود کو کبھی آزاد نہیں کیا اور یہ طلسم آج بھی برقرار ہے۔ اب ملک کا سیاسی پس منظر بہت زیادہ بدل چکا ہے۔ ایک اتفاق یہ بھی ہوا کہ پچھلے چند برسوں سے فرقہ پرست پارٹیوں اور خاص طور پر بی جے پی نے کچھ ایسے بااثر لیڈر پیدا کئے جنہیں قومی سطح کا لیڈر کہا جانے لگا، ان میں کئی نام ہیں ۔
(سلسلہ صفحہ 2 پر)