اچانک احتجاج سے حکومت پریشان

   

بے قیادت عوامی احتجاج بے مثال
بھینسہ کی صورتحال پر ٹی آر ایس کی خاموشی معنیٰ خیز

محمد نعیم وجاہت
شہر حیدرآباد نے سارے ملک و دنیا کو پھر ایک بار ثبوت پیش کردیا کہ یہاں کے عوام غیور اور زندہ ضمیر رکھنے والے ہیں۔ ملین مارچ اور ترنگا ریالی نے جہاں ساری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے وہیں فلیش احتجاج نے سرکاری نظم و نسق کی ناک میں دَم کرکے رکھ دیا ہے۔ جب سے شہریت قانون منظورہوا ہ تب سے شہر حیدرآباد کے بشمول ملک کے مختلف شہروں اور اضلاع میں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ ان مظاہروں کو سبوتاج کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوگئی ۔ پہلے جامعہ ملیہ پھر علی گڑھ یونیورسٹی کے بعد جے این یو میں تشدد برپا کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ سمجھا گیا کہ ان مسائل سے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج دب جائے گا مگر طلبہ برادری پر مظالم کے باوجود اس مسئلہ کے ساتھ ساتھ سی اے اے کے مسئلہ کو بھی زندہ رکھا گیا۔ یونیورسٹیوں سے شروع ہونے والی تحریک عوامی تحریک بننے پر ممتا بنرجی، اشوک گہیلوٹ ، کمل ناتھ کے علاوہ دوسری ریاستوں کے چیف منسٹرس سڑکوں پر نکل گئے اور بی جے پی کی حلیف جماعتوں نے بھی منہ کھولنا شروع کردیا۔ بہار اور اوڈیشہ کے چیف منسٹرس نے این آر سی پر عمل کرنے سے انکار کردیا ۔ گوا میں بی جے پی کے چیف منسٹر نے بھی اس کی مخالفت کی ۔ ہندوتوا کا چہرہ کھلانے والے شیوسینا کے سربراہ و چیف منسٹر مہاراشٹرا نے بھی این آر سی پر عمل نہ کرنے کا اعلان کردیا اور مہاراشٹرا میں تعمیر کئے جانے والے ڈسٹنیشن سنٹر کی تعمیرات پر روک لگادی۔ مگر سیکولرازم کے چمپین ہونے کا دعویٰ کرنے والے چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر نے اپنے آپ کو فارم ہاوز اور پرگتی بھون تک محدود رکھا، جس پر ریاست کے عوام کو سیکولرازم کا دعویٰ کھٹکنے لگا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ٹی آر ایس نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ این ڈی اے کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں متنازعہ بل کو منظور کروانے کیلئے اکثریت حاصل ہوگئی تھی جس کی وجہ سے بی جے پی نے ٹی آر ایس پر کوئی زیادہ دباؤ نہیں ڈالا ورنہ ماضی میں خصوصی طیاروں کا انتظام کرتے ہوئے بی جے پی نے ٹی آر ایس کے ارکان پارلیمنٹ کو ووٹ دینے کیلئے دہلی طلب کیا تھا۔ یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ ماضی میں صدر جمہوریہ کے عہدہ کیلئے علحدہ تلنگانہ ریاست کا بل پارلیمنٹ کے دروازے بند کرواکر منظور کروانے والی میرا کمار کے بجائے ٹی آر ایس نے این ڈی اے کے امیدوار رامناتھ کووند کی تائید کی، ساتھ ہی نائب صدر جمہوریہ عہدہ کیلئے کانگریس امیدوار گاندھی جی کے پوترے کے بجائے ٹی آر ایس نے این ڈی اے کے امیدوار ایم وینکیانائیڈو کی تائید کی۔ نائب صدرنشین راجیہ سبھا کے انتخابات، نوٹ بندی، جی ایس ٹی، طلاق ثلاثہ اور آرٹیکل 370 کی برخواستگی کے علاوہ مرکزی حکومت کے ہر بِل کی تائید کی۔ سی اے اے کے خلاف مظاہروں کے دوران 30 افراد ہلاک ہوگئے مگر چیف منسٹر تلنگانہ نے کوئی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔

حیدرآباد میں متنازعہ سیاہ قوانین کے خلاف دو بڑی ریالیاں اور جلسہ عام کا اہتمام کیا گیا ، اس پر بھی چیف منسٹر کے سی آر خاموش رہے۔ یہاں تک کہ ریاست میں بلدی انتخابات کیلئے اسٹیٹ الیکشن کمیشن کی جانب سے شیڈول اور نوٹیفکیشن کی اجرائی کے بعد پارٹی کے ہییڈکوارٹر تلنگانہ بھون میں چندر شیکھر راؤ نے پارٹی کے قائدین کا دو مرتبہ اجلاس طلب کیا، اُمید کی جارہی تھی کہ کے سی آر خاموشی توڑیں گے لیکن پھر بھی چیف منسٹر خاموش رہے بلکہ انہوں نے پارٹی قائدین کو سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف کوئی ردعمل کا اظہار نہ کرنے کی ہدایت دی۔ یہاں تک کہ صدر مجلس اسد الدین اویسی نے مجلس متحدہ عمل کے 30 ذمہ داروں کے ساتھ چیف منسٹر کی سرکاری قیامگاہ پرگتی بھون پہنچ کر کے سی آر سے ملاقات کی ، چیف منسٹر نے صرف ان کے ساتھ لنچ کیا اور نظام آباد کے جلسہ عام میں شریک ہونے کی نظام آباد کی نمائندگی کرنے والے وزیر کو متحدہ مجلس عمل کے نمائندوں کے سامنے ہدایت دی اور دو دن میں کوئی فیصلہ کرنے کا انہیں یقین دلایا۔ 30 جنوری کو سکندرآباد میں ایک جلسہ عام منعقد کرنے کا انہیں تیقن دیا۔ لیکن نظام آباد کے جلسہ عام میں متعلقہ وزیر نے شرکت نہیں کی۔ دوسرے دن وزیر اکسائیز سرینواس گوڑ نے وضاحت کردی کہ چیف منسٹر نے سی اے اے کے خلاف کوئی جلسہ کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے ایک اخبار کی نیوز قرار دیتے ہوئے اس کو مسترد کردیا۔ چیف منسٹر کے فرزند کے ٹی آر جو ٹی آر ایس کے ورکنگ پریسیڈنٹ کے ساتھ ساتھ ریاست کے وزیر بھی ہیں اس مسئلہ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس پر کابینہ میں فیصلہ کیا جائے گا مگر جیسے ہی 120 بلدیات اور 10 کارپوریشنس کے انتخاب کا نوٹیفکیشن جاری ہوگیا مسلمانوں کے احتجاج میں شدت پیدا ہوجانے اور بھینسہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوجانے کے بعد مسلم ووٹوں سے دوری کا ٹی آر ایس کو اندازہ ہوا ، اور ایک ہی دن میں دو وزراء کے ٹی آر اور محمد محمود علی نے انتخابی مہم اور ٹیلی ویژن کو دیئے گئے انٹرویو میں این آر سی پر عمل نہ کرنے کا اعلان کیا اور سی اے اے پر مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے پر بی جے پی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے مسلمانوں کے زخم پر مرہم رکھنے کی کوشش کی ہے، مگر یہ ردعمل دیوار کی بلی کے مماثل ہے۔ اگر ٹی آر ایس شہریت ترمیمی بل کے خلاف ہے تو چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر ‘ ممتا بنرجی ، اشوک گہیلوٹ اور کمل ناتھ کی طرح سڑکوں پر کیوں نہیں آئے۔ کیرالا اور پنجاب کی طرح اس بل کی مخالفت میں قرارداد منظور کرنے کیلئے اسمبلی کا خصوصی اجلاس کیوں طلب نہیں کیا ۔ حیدرآباد اور ریاست کے دوسرے اضلاع میں منعقد ہونے والی احتجاجی ریالیوں اور جلسہ عام میں شرکت کیو ںنہیں کی۔ کیا ٹی آر ایس کو اکثریتی ووٹ سے دور ہوجانے کا ڈر ہے ۔ آج ہر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے ۔ احتجاج کے ذریعہ اقتدار کے زینہ تک پہونچنے والی ٹی آر ایس کا ماضی کا ریکارڈ بہت خراب ہے۔ اس لئے کے ٹی آر اور محمد محمود علی کے وعدے کے باوجود عوام اس پر بھروسہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کیونکہ تحریک کے دوران کے سی آر نے علحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دینے پر ٹی آر ایس کو کانگریس میں ضم کرنے کا سونیا گاندھی سے وعدہ کیا تھا اور علحدہ تلنگانہ ریاست کا پہلا چیف منسٹر دلت ہونے کا وعدہ کیا تھا۔ مسلمانوں کو 12 فیصد اور قبائیلی طبقہ کو 10 فیصد تحفظات دینے کا وعدہ کیا۔ دلت طبقات کو 3 ایکر اراضی، 2.60 لاکھ ڈبل بیڈ روم مکانات تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ گھر گھر نلوں کے ذریعہ پینے کا صاف پانی پہنچنے تک عوام سے ووٹ نہ مانگنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن تین ماہ قبل اسمبلی تحلیل کرتے ہوئے قبل از وقت اسمبلی کے انتخابات کرالئے گئے۔ 2018 کے اسمبلی انتخابات میں بیروزگار نوجوانوں کو ماہانہ 3015 روپئے بیروزگاری بھتہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ایک لاکھ سرکاری ملازمتیں دینے اور ایک کروڑایکر فاضل اراضیات کو قابل کاشت بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر ان وعدوں پر کوئی عمل آوری نہیں کی گئی۔ بھلے ہی بلدی انتخابات میں ٹی آر ایس جیت جائے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سارے عوام حکومت کی تائید میں ہے۔ مقامی اداروں اور بلدیات کے انتخابات میں حکمراں جماعت کی کامیابی عام بات ہے۔ عوام یہ سوچتے ہیں کہ حکمران جماعت کو کامیاب بنانے سے ان کے علاقوں کی ترقی ہوگی۔
دراصل شہریت ترمیمی قانون ہندوستان کی سرحدوں میں مسلمانوں کے داخلے کا ممنوع بورڈ ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے اقلیتوں کو تو کیا دنیا کے تمام ہندوؤں کو ہندوستانی شہریت دی جائے، اس پر مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ صرف مسلمانوں کو شہریت دینے سے انکار کرنے پر ہی مسلمانوں کے علاوہ ملک کے دوسرے عوام کو اعتراض ہے۔ اس سے بی جے پی کی نیتی اور نیت دونوں کا پتہ چلتا ہے۔ آسام میں کرایاگیا این آر سی کا تجربہ ہمارے سامنے ہے جس میں 13 لاکھ ہندو اور 6 لاکھ مسلمان شامل ہیں۔ آسام میں کرائے گئے این آر سی کے نتیجہ سے آر ایس ایس اور ہندوتوا تنظیموں کے ہوش اُڑ گئے اور مودی حکومت کو بھی بہت بڑا جھٹکہ ہندوتوا تنظیموں کے آگ بگولہ ہونے کے بعد ان کے غم و غصہ کو کم کرنے کیلئے شہریت ترمیمی قانون منظور کیا گیا جس میں آسام میں جن 13 لاکھ ہندوؤں کو غیر ہندوستانی قراردیا گیا تھا اُن کو تو آسانی سے ہندوستانی شہریت مل جائے گی اگر کسی کو شہریت نہیں ملے گی تو وہ 6 لاکھ مسلمان ہوں گے۔ مگر ان سیاہ قوانین کے خلاف سارے ملک میں ہونے والے احتجاج نے مودی۔ شاہ کی نیندیں اُڑادی ہیں۔ گزشتہ 6 سال کے دوران بی جے پی کو سب سے بڑی مخالفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایک سال کے دوران ملک کی 5 ریاستوں میں بی جے پی اقتدار سے محروم ہوگئی۔ شہر حیدرآباد میں جاری احتجاج سے پولیس اور سرکاری نظم و نسق پریشان ہے۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اتنے لمبے دنوں تک احتجاج جاری رہے گا ۔ کانگریس کے سنئر قائد نے سابق ریاستی وزیر محمد علی شبیر نے صدر مجلس و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد اسد الدین اویسی پر تیکھا ریمارک کرتے ہوئے کہا کہ اسد الدین اویسی نے متحدہ مجلس عمل کے 30نمائندوں کو تین گھنٹوں تک چیف منسٹر کی قیامگاہ پر بٹھایا اور ریاست کے مختلف اضلاع میں سی اے اے کے خلاف احتجاج ، جلسے و جلوس کئے جارہے ہیں۔
صدرمجلس کی جانب سے نظام آباد کے جلسہ عام میں چیف منسٹر اور ٹی آر ایس کو سیکولر قرار دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج ہورہا ہے یا بلدی انتخابات کیلئے ٹی آر ایس کی انتخابی مہم چلائی جارہی ہے۔ سیاہ اور متنازعہ قوانین کے خلاف نوجوان اور عوام بغیر کسی قیادت کے احتجاجی مہم چلارہے ہیں سیاسی جماعتوں کے قائدین اور سربراہوں کو ان احتجاج میں شامل ہونا مجبوری بن گئی ہے۔ بھینسہ ہمیشہ حساس تصور کیا گیا ہے ، وہاں پھوٹ پڑی فرقہ وارانہ کشیدگی پر حکمران جماعت کی خاموشی معنی خیز ہے اور قیاد ت کا دعویٰ کرنے والوں پر بھی سوالات اُٹھ رہے ہیں۔آج سے 9 تا10سال قبل جب ضلع عادل آباد کے وٹولی میں ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ اس وقت قیادت کافی جلال میں تھی ۔ اس وقت کے وزیر داخلہ کے جانا ریڈی پر برہمی کا اظہار کیا تھا جس کے ویڈیوز آج بھی سوشیل میڈیا میں وائرل ہورہے ہیں۔
آلیر انکاؤنٹر ، مسجد یکخانہ کی انہدامی، بھینسہ میں کشیدگی پر قیادت کی خاموشی ایسے سوالات ہیں جو پوچھتے ہیں تو چبھتے ہیں یا سوال کرنے والوں کو مخالفین کی فہرست میں شامل کردیا جاتا ہے۔ طلاق ثلاثہ کیخلاف پارلیمنٹ میںووٹ دینے والی کانگریس کو مسلمانوں کی مخالف جماعت اور تائید کرنے والی ٹی آر ایس کو مسلمانوں کی حامی جماعت قرار دیا جارہا ہے۔ عوام اب باشعور ہوگئے ہیں ، اب انہیں زیادہ دنوں تک اندھیرے میں نہیں رکھا جاسکتا۔ مطلب کی سیاست سے ملت کوفائدہ کم نقصان زیادہ ہورہا ہے۔