غیر ملکی اخبارات کی رپورٹ پر کانگریس قائد کی وزیر اعظم نریندر مودی پر سخت تنقید
ممبئی :کانگریس رکن پارلیمنٹ راہول گاندھی نے 31 اگست کو اڈانی گروپ معاملے پر مرکز کی مودی حکومت کو ایک بار پھر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس بار انھوں نے کچھ غیر ملکی اخبارات کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے تلخ سوالات رکھے اور کہا کہ ان اخبارات کا اثر ہندوستان کی شبیہ و سرمایہ کاری پر پڑتا ہے۔ راہول گاندھی نے اڈانی گروپ معاملے پر ممبئی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وزیر اعظم مودی کے ایک قریبی (گوتم اڈانی) نے ایک بلین ڈالر کا استعمال شیئر خریدنے کیلئے کیا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ کس کا پیسہ ہے؟ اڈانی کا یا پھر کسی اور کا؟ اس کی جانچ ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی راہول گاندھی نے کہا کہ وزیر اعظم مودی آخر اڈانی معاملے پر خاموش کیوں ہیں؟ جی 20 کے قائدین ہندوستان آنے والے ہیں جو یہ سوال پوچھیں گے کہ ایک کمپنی اسپیشل کیوں ہے؟ بہتر ہوگا کہ ان کے آنے سے پہلے ان سوالات کے جواب دیے جائیں۔ اس معاملے کی جے پی سی جانچ کرائی جائے۔دراصل آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجکٹ (او سی سی آر پی) نے اڈانی گروپ پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کے پروموٹرس فیملی کے شراکت داروں سے جڑے غیر ملکی یونٹس کے ذریعہ گروپ کے شیئرس میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس الزام کے بعد ایک بار پھر گوتم اڈانی سرخیوں میں ہیں اور کانگریس کے ساتھ ساتھ اپوزیشن پارٹیاں مرکز کی مودی حکومت پر تنقید کر رہی ہیں۔راہول گاندھی نے پریس کانفرنس میں انگریزی اخبارات ’دی گارجین‘ اور ’فینانشیل ٹائمز‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی رپورٹس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان اخبارات نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک فیملی جو مودی جی کے بہت قریب ہے، اس نے شیئر پرائس کو بڑھانے کیلئے پیسہ لگایا۔ اخبار نے یہ بھی کہا ہے کہ بطور ثبوت ان کے پاس دستاویزات اور ای میل موجود ہیں۔ راہول گاندھی نے وضاحت کی کہ 1 بلین ڈالر ہندوستان سے اڈانی جی کی کمپنی کے نیٹ ورک کے ذریعہ الگ الگ ممالک میں گیا اور پھر واپس آیا۔ اس پیسے سے اڈانی جی نے اپنے شیئر پرائس کو بڑھایا۔ اسی منافع سے اڈانی جی ایئرپورٹ خرید رہے ہیں، بندرگاہ خرید رہے ہیں اور ہندوستان کے دیگر سرمایے خرید رہے ہیں۔ پھر وہ سوال کرتے ہیں کہ یہ پیسہ جو استعمال کیا جا رہا ہے وہ کس کا ہے؟ یہ اڈانی جی کا ہے یا کسی اور کا ہے؟ اور اگر کسی اور کا ہے تو وہ کس کا ہے؟‘‘ راہول گاندھی نے مزید کہا کہ اس کام کو کرنے کے لیے ماسٹر مائنڈ ونود اڈانی جی ہیں جو گوتم جی کے بھائی ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ ان کے دو مزید بزنس پارٹنرس ہیں۔ ایک کا نام ناصر علی شعبان علی ہے اور دوسرے چین چنگ لنگ (چینی باشندہ) ہیں۔ جب اڈانی جی ہندوستان کا انفراسٹرکچر خریدے جا رہے ہیں تو یہ جو چینی شہری ہیں یہ اس میں کیسے جڑے ہوئے ہیں؟ ان کا کیا کردار ہے؟ یہ پتہ لگانے کی ضرورت ہے کہ یہ بیرون ملک کا شہری ہندوستانی شیئر مارکیٹ کو کس طرح متاثر کر رہے ہیں۔ راہول گاندھی نے ایک بہت اہم بات میڈیا کے سامنے رکھی کہ اڈانی معاملے میں جو سیبی کی جانچ ہوئی تھی اور جس شخص نے جانچ کے بعد کلین چٹ دے دی تھی، آج وہ اڈانی جی کے چینل ’این ڈی ٹی وی‘ کا ڈائریکٹر ہے۔ مطلب صاف ہے کہ یہ ایک نیٹ ورک ہے۔ اس پر وزیر اعظم خاموش کیوں ہیں؟‘‘ راہول گاندھی نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ آخر سی بی آئی اور ای ڈی جیسی ایجنسیاں اڈانی گروپ معاملے کی جانچ کیوں نہیں کر رہی ہے؟