سینئر بی جے پی لیڈر لال کرشنا اڈوانی نے اپنے بلاگ میں تنقید اور جمہوریت کے متعلق اپنے خیالات کو اجاگر کیاہے جو کہ ایک پارٹی کے مارگ درشک کے دانائی والے الفاظ ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب پارٹی اپوزیشن کی حب والوطنی پر سوال کھڑے کررہی ہے ‘ اڈوانی نے کہاکہ بی جے پی کبھی بھی اپنے سیاسی مخالفین اور دشمنوں سے غدار ملک نہیں سمجھااور نہ ہی ان کے نظریات سے عدم اتفاق رکھا۔
انہوں نے اپنے بلاگ میں اس بات کو بھی شامل کیاکہ ہندوستانی جمہوریت کی خصوصیت اظہار خیال کی آزادی اور ہم آہنگی کا احترام ہے۔
مذکورہ تبصرہ بی جے پی کی سیاست کے برعکس ہے جو اپوزیشن کے سوالات کا جواب دینے کے بجائے انہیں بڑی آسانی کے ساتھ بدنام کرنے یا پھر ملک کاغدار قراردینے کی کوشش کرتے ہوئے بھاگ نکلتی ہے۔
اگر یہ حقیقت ہے ہوتی او رپاکستان کے ساتھ سبھی ہوتے تو یقیناًپاکستان نہایت مضبوط ملک ہوتا ۔
اگر مخالفین کو مجرمانہ ایکٹ کے طور پر دیکھا جائے تو جمہوریت ڈکٹیٹر شپ میں تبدیل ہوجائے گی ۔اس پس منظر میں جب بی جے پی نے سیڈیشن قانون میں تبدیلی لانے کے متعلق کانگریس کے بیان کی تذلیل میں تو ایسا لگا کہ پاکستان میں جہاں ملک پر تنقید کرنے والے کے خلاف توہین کا مقدمہ درج کیاجاتا ہے۔
سیڈیشن کو مخالف ملک نہیں بلکہ اس پر ہونے والی تنقیدوں کے پیش نظر مذکورہ قانون کو مخالف نوآبادیاتی قانون کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ بی جے پی کے خود مختار کا’’ غدار ملک‘‘ کا استعمال ان پر بھاری پڑسکتا ہے۔
اس کی مثال کے طور پر یونین منسٹر اور سابق آرمی چیف وی کے سنگھ نے ’’ مودی کی سینا‘’ کا الفظ استعمال کرنے والے کو غدار قراردیاہے۔
بی جے پی کے اترپردیش چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ نے ایک الیکشن ریالی میںیہ تبصرہ کیاتھا۔ تو کیایوگی ملک کے غدار ہیں؟۔بی جے پی کو اڈوانی کی رائے پر عمل کرنے فائدہ مند ہوگا۔