اکثریتی غلبہ کی پالیسی

   

پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں لوک سبھا کے سشن کا اختتام عمل میں آگیا ہے ۔ راجیہ سبھا میں کام کاج ابھی باقی ہے ۔ لوک سبھا میں وہ ارکان موجود ہوتے ہیں جو عوام کے ووٹ سے منتخب کئے جاتے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن ارکان کی اہمیت مسلمہ ہوتی ہے ۔ حالانکہ قانون سازی حکومت کرتی ہے لیکن اپوزیشن اور اس کے ارکان کی تجاویز اور ترامیم کو بھی اس میں شامل کیا جاتا ہے ۔ ان کا جائزہ لینے کے بعد اس تعلق سے کوئی بھی فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ تاہم موجودہ حکومت اکثریت کے زعم اور غلبہ کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے ۔ اس پالیسی کے تحت قوانین اور روایات کو پامال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں قوانین کی منظوری محض ندائی ووٹ سے ہو رہی ہے ۔ ان پر مباحث جیسی روایت کو ختم کردیا گیا ہے ۔ جب مباحث کی ہی گنجائش نہیں رہ گئی ہے تو اپوزیشن کی تجاویز پر غور یا انہیں قبول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ حکومت اپوزیشن کو اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت دینے بھی تیار نظر نہیں آتی ۔ جو صورتحال آج پیدا ہوئی ہے وہ وفاقی طرز حکمرانی کے اصولوں اور قواعد کے مغائر ہی کہی جاسکتی ہے ۔ جس طرح سرمائی اجلاس کے دوران لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے ارکان کو معطل کیا گیا ہے وہ بھی ایک ایسا کام ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال یا نظیر نہیں ملتی ۔ حکومت نے محض اکثریت کے غلبہ اور عددی طاقت کے بل پر ایوان کو بھی سیاسی اکھاڑہ بنانے سے گریز نہیں کیا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 100 سے زائد ارکان کو دونوں ہی ایوان سے معطل کردیا گیا ۔ ان کی غیر موجودگی میں ملک اور عوام کیلئے اہمیت رکھنے والے قوانین کو لوک سبھا میں ندائی ووٹ سے منظور کروالیا گیا ۔ ایوان میں جس طرح سے ارکان کی موجودگی کے باوجود بھی ان کی آواز کو دبایا اور کچلا گیا ہے اس کی بھی مثالیں موجود ہیں۔ اپوزیشن کے کئی ارکان کو ایوان میں اظہار خیال سے روکنے کیلئے ان کے مائیک بند کردئے گئے اور ان کی آواز کو مکمل نظر انداز کردیا گیا ۔ خاص طور پر موجودہ حکومت اپنی دوسری معیاد میں انتہائی آمرانہ روش اختیار کی ہوئی ہے ۔
موجودہ مرکزی حکومت نے اپنی دوسری معیاد کے دوران کئی اہم فیصلے انتہائی غیر ذمہ دارانہ انداز میں کئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ فیصلے درست بھی ہوں اور ان کے مثبت نتائج اور اثرات بھی برآمد ہوئے ہوں لیکن ایک بات ضرور ان فیصلوں کے ذریعہ محسوس کی گئی ہے کہ ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین باہمی احترام اور خیرسگالی کا جو جذبہ موجود رہتا تھا اسے عمدا ختم کردیا گیا ہے ۔ جو جذبہ ملک کی پارلیمانی جمہوریت اور وفاقی طرز حکمرانی کو مستحکم کرنے کی وجہ رہا کرتا تھا اس سے دوری اختیار کرلی گئی ۔ جو روایات ایک دوسرے کی تجاویز اور مشورںو کو قبول کرنے کی تھی اسے ختم کردیا گیا اور ملک کی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ حکومت نے دشمنوں جیسا رویہ اختیار کیا ۔ سیاسی اختلافات کو سیاست تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ شخصی عناد اور انتقامی کارروائیوں سے بھی اجتناب نہیں کیا گیا ۔ اختلافات کا ماحول اس قدر شدت اختیار کرگیا ہے کہ اب اپوزیشن جماعتیں حکومت کو اور حکومت اپوزیشن کو نیچا دکھانے کی جدوجہد میں مصروف دکھائی دینے لگی ہیں۔ یہ سب کچھ ملک کے مفاد میں نہیںہوسکتا ۔ جمہوریت میں کسی بھی کی حکومت کسی بھی وقت زوال کا شکار ہوسکتی ہے اور کوئی شکست خوردہ جماعت کسی بھی وقت اقتدار کے زینے طئے کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔ اس حقیقت کو ہر دو فریق کو پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ جمہوری اصولوں کو مستحکم کیا جاسکے ۔ پارلیمانی جمہوریت کو استحکام بخشا جاسکے اور ملک کے عوام میں اعتماد بحال کیا جاسکے ۔
اپوزیشن ارکان کو ایوان سے بارہا معطل کردینا اور ان کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات کے جواب دینے سے گریز کرنا موجودہ حکومت کا وطیرہ بن گیا ہے اور یہ صورتحال اب اپنے عروج پر پہونچ گئی تھی ۔ حکومت بھی اپنی دوسری معیاد کے آخری ایام تک پہونچ چکی ہے ۔ آئندہ پارلیمانی انتخابات بھی قریب ہیں۔ ایسے میں جو سیاسی اختلافات تھے وہ تو شدت اختیار کرنے ہی ہیں لیکن جمہوری اصولوں سے کھلواڑ اور ان کو پامال کرنا افسوسناک رجحان کہا جاسکتا ہے ۔ ملک کے عوام حکومت اور اپوزیشن دونوں سے امیدیں رکھتے ہیں اور ہر ایک کو عوام کی توقعات کو پورا کرنے کا موقع بھی ضرور دستیاب رہنا چاہئے ۔