اکھنڈ بھارت یا جنوبی ایشیائی ممالک کی یونین

   

رام پنیانی
تقسیم ہند جنوبی ایشیائی علاقہ کے بڑے المیوں میں سے ایک المیہ تھا۔ اس دور میں ملک کی جو تقسیم ہوئی اسے برطانوی سامراج کی پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو سے متعلق پالیسی کی مثلثی شکل میں دیکھا جائے گا۔ ہندو فرقہ پرست ہندو قوم کی اجارہ داری و برتری میں یقین رکھتے تھے اور مسلم فرقہ پرستوں نے قیام پاکستان کا مطالبہ کیا اور اسی مطالبہ پر قائم رہے۔ تاریخ نے پھر دیکھا کہ پاکستان کی تقسیم عمل میں آئی اور مشرقی پاکستان، پاکستان سے کٹ کر یا تقسیم ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔ حالانکہ تقسیم کی وجہ مذہبی بنیاد بتائی گئی۔ اگر ایسا ہوتا یعنی ہندوستان کی تقسیم مذہبی بنیاد پر عمل میں آتی تو مشرقی پاکستان، پاکستان سے کٹ کر بنگلہ دیش نہیں بنتا۔ ہندو اور مسلمانوں کی اکثریت مذہبی بنیاد پر تقسیم کے نظریہ کے خلاف ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑی رہی۔ اس سلسلہ میں صرف دو نام ہی کافی ہیں۔ ایک تو مولانا ابوالکلام آزاد اور موہن داس کرم چند گاندھی۔ ان دونوں شخصیتوں نے مذہبی بنیاد پر تقسیم ملک کی شدید مخالفت کی تھی لیکن ہندو فرقہ پرستوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ ایک ہندو ملک ہے جب سے ملک کی تقسیم ہوئی تب سے کئی ہندو فرقہ پرست اس موقف کے حامل رہے کہ متحدہ ہندوستان سے علیحدہ ہوکر پاکستان اور بنگلہ دیش کی شکل اختیار کرنے والے ممالک کو پھر دوبارہ ہندوستان میں واپس لانا چاہئے۔ اس تصور کو اکھنڈ بھارت کہا جارہا ہے۔ ان فرقہ پرستوں کا یہی موقف ہے کہ ہندو دھرما کی بنیاد پر یہ تصور اکھنڈ بھارت کہلاتا ہے۔ اس معاملہ میں آر ایس ایس سرسنگھ چالک یا سربراہ موہن بھاگوت کی تقاریر کا جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے متعدد مرتبہ ہندو دھرما کی بنیاد پر اکھنڈ بھارت کی بات کی اور پاکستان و بنگلہ دیش کو دوبارہ ہندوستان میں شامل کرنے کی وکالت کی۔ ان کا ہمیشہ سے یہی کہنا ہے کہ ہندوستان کو پھر ایک مرتبہ متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ طاقت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ ہندو دھرما کی بنیاد پر ۔ آر ایس ایس سربراہ کا اپنی تقاریر میں یہ بھی کہنا ہوتا ہے کہ علیحدہ ہونے والے ممالک نے وہ سب کچھ کردیا جو وہ کرسکتے تھے لیکن اپنی تباہی کا کوئی علاج نہ کرسکے اور اس کا علاج صرف بھارت کے ساتھ ان کے دوبارہ متحد ہونے میں ہے۔ اگر وہ خود کو دوبارہ بھارت سے جوڑ لیتے ہیں اس کے ساتھ متحد ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے تمام مسائل حل ہوں گے۔ تاہم آر ایس ایس کے سربراہ نے بھی کہا ہے کہ دوبارہ اتحاد ہندو دھرما کے ذریعہ ہونا چاہئے۔ آر ایس ایس اس طرح اکھنڈ بھارت کا اپنا آئیڈیا نہ صرف پاکستان اور بنگلہ دیش کے لئے پیش کرتی ہے بلکہ افغانستان، مائنمار، سری لنکا اور تبت کو بھی اس میں شامل کرتی ہے اور آر ایس ایس ان تمام ملکوں پر مشتمل علاقہ کو ہندو تہذیب و ثقافت پر مبنی ملک یا راشٹر قرار دیتی ہے۔ یہ تو رہی بات اکھنڈ بھارت سے متعلق آر ایس ایس کے منصوبوں کی یا اس کے نظریات کی ایک اور سطح پر تریپورہ کے چیف منسٹر بپلب دیو نے حال ہی میں رابندر ستابرشیکھی بھون میں پارٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا کہ بی جے پی تمام ہندوستانی ریاستوں میں کامیابی کے بعد پڑوسی ملکوں میں پارٹی قائم کرتے ہوئے وہاں بھی حکومتیں قائم کرنے کی خواہاں ہے۔ یہ دراصل ہندو فرقہ پرستوں کا وہ نظریہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ علاقہ ایک ہندو ملک سے تعلق رکھتا ہے اور ہندو مذہب دوبارہ اتحاد کی بنیاد ہوگا۔ اس طرح کی باتوں سے آر ایس ایس کے حقیقی رنگ کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دھرما کا ترجمہ مذہب کے طور پر نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے خیال میں دھرما مذہب سے بالکل مختلف ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ آخر دھرما کیا چیز ہے؟ یہ دراصل مذہبی بنیادوں پر مقررہ یا طے کردہ فرائض ہیں۔ اس میں شتریہ دھرما، استری دھرما وغیرہ جیسے الفاظ شامل ہیں اور اس میں ذات پات اور صنف کے کرداروں کا اشارہ دیا گیا اور ان کرداروں کو روایاتی طور پر ان کے لحاظ سے کام تفویض کئے گئے۔ یہ بالکل سچ ہے کہ ہندو ازم دیگر تمام مذاہب سے بالکل مختلف ہے لیکن یہ بھی ایک مذہب ہے اس میں برہما، وشنو مہیش جیسے دیوتا ہیں۔ اس مذہب میں مذہبی رسم و رواج ہیں، اس میں ان کی اپنی مقدس کتاب ہے، مذہبی رہنما پجاری و پنڈت ہیں اور ان کے اپنے مقدس مقامات ہیں۔ اگر ہم ہندو قوم پرستوں کی مہمات اور ان کے کاموں کا بغور جائزہ لیں تو یہی نظر آتی ہے کہ ان کی مہمات دراصل مندروں یا پوجا پاٹ کے مقامات (رام مندر) مقدس علامتوں (گائے) اور ہندو شناخت سے جڑے مسائل جیسے لو جہاد کے اطراف و اکناف گھومتی ہیں۔ یہ بھی دعوے کئے جاتے ہیں کہ ہندوتوا کوئی مذہب نہیں بلکہ اسی طرح کا ایک طرز حیات ہے جو تمام دوسرے مذاہب میں بھی پایا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہاں ہندوتوا اور ہندو ازم کے درمیان جو الجھن پائی جاتی ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہندوتوا ایک سیاست ہے جبکہ ہندوازم اپنے آپ میں مختلف رجحانات رکھنے والا ایک مذہب ہے۔ اکھنڈ بھارت کے تصور سے وفاقی نظام سلطنت کی آواز آتی ہے جیسے اس کی بنیاد ہندو دھرم ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب مذہب کے اطراف سیاست پر مبنی کوشش کی گئی تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ہندوستان تقسیم ہوگیا۔ آج آر ایس ایس جن ملکوں کو اکھنڈ بھارت میں لانے کا خواب دیکھ رہی ہے اور مقصد رکھتی ہے ان ملکوں میں مختلف مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں۔ کیا وہ ہندوستان کو متحد کرنے کی ایک بنیاد کی حیثیت سے ہندو دھرم کو قبول کریں گے؟ نظریاتی طور پر دیکھا جائے تو ہندوستان خود سیکولر ملک ہے اور ہندو دھرم اس کی بنیاد نہیں۔ موہن بھاگوت اینڈ کمپنی کے موجودہ بیانات اور موقف سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ باہمی تعاون کے ساتھ آگے بڑھنے کی بجائے توسیع پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ آج انسانی معاشرہ خود متحد ہونے کی جانب رواں دواں ہے اور ایک دوسرے سے کچھ سیکھنے کا خواہاں ہے اور یہ وقت کی اہم ترین ضرورت بھی ہے۔ عالمی ادارے جیسے اقوام متحدہ، یوروپی یونین اور سارک وغیرہ امن قائم کرتے ہوئے مختلف ملکوں کے درمیان پائے جانے والے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ ایسے ادارے ہیں جو باہمی تعاون و اشتراک کی بنیاد پر قائم کئے گئے ہیں اور ساری دنیا میں اس کی وجہ سے ان کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ یہاں جو تصور ہے وہ دراصل دوسرے ممالک کے اقتدار اعلیٰ کا احترام کرنا ہے اور ان کے ساتھ مساویانہ بنیاد پر معاملت کرنا ہے۔ اگر ہم یوروپی یونین کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ یوروپی ممالک کے درمیان ایک عظیم اشتراک کی بہترین مثال ہے۔ دور جانے کی بجائے ہم اپنے گھر کے قریب ہی دیکھتے ہیں اور سارک کا جو تجربہ رہا اس کے فوائد ہمیں نظر آتے ہیں۔ سارک نے تجارت، کامرس، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں تعاون و اشتراک کو بڑھانے پڑوسی ملکوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا عظیم کام کیا ہے اور اسے ہم بلا شبہ ایک عظیم پہل کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح کے کسی بھی اقدام نے مذہب کو اس کی بنیاد کی حیثیت سے نہیں رکھا بلکہ باہمی تعاون و اشتراک میں اضافہ کرتے ہوئے معاشی و سماجی ترقی کے ساتھ ساتھ امن قائم کیا گیا لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ موجودہ حالات میں یہ تمام پہلیں نسبتاً کمزور دکھائی دیتی ہیں لیکن ایک چیز ہے جو انسانی معاشرہ ان تجربات سے سیکھ سکتا ہے وہ یہ کہ مادی تعاون و اشتراک ٹھوس بنیادوں پر کیا جائے تو مختلف ملکوں کے جو مسائل ہیں ان کے اتحاد سے حل ہوں گے اور کئی پیچیدہ مسائل کا دوستانہ حل نکل آئے گا اور یہ تبھی ممکن ہے جب متعلقہ ممالک دوستانہ تعلقات استوار کریں۔ ہاں جنوبی ایشیائی علاقہ کے جن ممالک کی اکھنڈ بھارت کے حصے کی حیثیت سے نشاندہی کی گئی وہ یقینا ایک دوسرے کے اقتدار اعلیٰ کے تئیں مساوات اور باہمی احترام کی بنیاد پر ایک مضبوط وفاق تشکیل دے سکتے ہیں۔ اس کے لئے انہیں اپنی روایتوں اور تہذیبوں کے تئیں بھی باہمی احترام کو فروغ دینا چاہئے اس سے بہتر اقتصادی اور سیاسی ماحول کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔