اگر تم مدد نہ کر و گے رسول کریم کی تو (کیا ہوا) انکی مدد فرمائی ہے

   

اگر تم مدد نہ کر و گے رسول کریم کی تو (کیا ہوا) انکی مدد فرمائی ہے خود اللہ نے جب نکالا تھا ان کو کفار نے۔ آپ دوسرے تھے دو سے جب وہ دونوں غارِ (ثور) میں تھے جب وہ فرمارہے تھے اپنے رفیق کو کہ مت غمگین ہو یقیناً اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے…(سورۂ توبہ:۴۰)
حضرت صدیق ؓ کے بخت کی یاوری کا کیا کہنا بیتاب نگاہیں اور بیقرار دل اپنے محبوب کے روئے زیبا کے مشاہدہ میں مستغرق ہے نہ دل سیر ہوتا ہے اور نہ آنکھیں۔ وہ حسن سرمدی وہ جمال حقیقی جس کی دل آویزوں نے چشم فطرت کی تصویر حیرت بنا دیا تھا۔ آج صدیقؓ کے آغوش میں جلوہ فرما ہے۔ اسی اثناء میں حضرت صدیق ؓکی ایڑی میں سانپ نے ڈس دیا۔ زہر سارے جسم میں سرایت کر گیا لیکن کیا مجال کہ پاؤں میں جنبش تک ہوئی ہو۔ حضور ؐبیدار ہوئے، اپنے یارغار کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وجہ دریافت فرمائی۔ پھر جہاں سانپ نے ڈسا تھا وہاں اپنا لعاب دہن لگایا جس سے درد اور تکلیف کا فور ہوگئی۔ اہل مکہ تلاش میں اِدھر اُدھر مارے مارے پھر رہے تھے۔ ایک ماہر کھوجی کے ہمراہ پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے اس غار کے دہانے تک پہنچ گئے۔ جب قدموں کی آہٹ سنائی دی تو حضرت صدیقؓ بےچین ہوگئے اور عرض کی یا رسول اللہ! اگر انہوں نے جھک کر دیکھا تو یہ ہمیں پالیں گے۔ حضور رحمۃ للعلمین(ﷺ) نے فرمایا: اے ابوبکر! ان دو کی نسبت تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہو۔ نبی کی قوت یقین ملاحظہ ہو۔ یہ ہے توکل علی اللہ کا وہ مقام جو شان رسالت کے شایاں ہے اس وقت اللہ تعالیٰ نے اطمینان و تسکین کی ایک مخصوص کیفیت اپنے حبیب مکرم پر نازل فرمائی اور حضور (ﷺ) کے صدقے حضرت ابوبکر ؓپر بھی اس کا ورود ہوا۔ جس سے ان کی ہر طرح کی پریشانی دور ہوگئی۔