اہم قانونی دستاویزات ساتھ میں رکھنے کامشورہ، این آر سی کے ذریعہ مسلمانوں میں خوف پیدا کرنے کی کوشش: سماجی و انسانی حقوق جہد کار تیستا سیتلواد

,

   

آسام میں این آر سی کی قطعی فہرست میں 19,06,657 مرد و خواتین اور نوجوانوں کے نام حذف کئے جانے سے وہاں عجیب و غریب صورتحال پیدا ہوگئی ہے جبکہ حکومت گول پارہ ، کوکرا جھار، سلچر، دبرو گڑھ میں واقع حراستی مراکز میں محروسین کی تعداد بڑھانے کی فکر میں ہے ( یہ الگ بات ہیکہ الجزیرہ رپورٹ کے مطابق آسام میں دنیا کے سب سے بڑے حراستی مرکز کی تعمیر کا عمل جاری ہے ) آسام میں سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے این آر سی کروایا گیا اور مرکزی حکومت نے جس نیت سے وہاں این آر سی کا اہتمام کروایا اس سے بھی تمام ذی ہوش ہندوستانی واقف ہیں ۔ یہ دراصل مسلمانوں اور ریاست میں کئی دہوں سے آباد اقلیتوں بالخصوص بنگالی زبان بولنے والوں کو نشانہ بنانے کیا گیا ۔ لیکن سپریم کورٹ کی ہدایت اور مسٹر پرتیک ہاجیلا کی نگرانی میں این آر سی میں جن 19 لاکھ لوگوں کے نام حذف کئے گئے ان میں بنگالی ہندوؤں ، غریب و مظلوم مزدوروں کی اکثریت ہے۔ تقریباً 13 لاکھ آسامی اور بنگالی بولنے والے ہندو بشمول راج ونشی گورکھے وغیرہ کو ہندوستانی شہری ماننے سے انکار کردیا گیا شامل ہیں ۔ اس کے بعد تو این آر سی کا مطالبہ کرنے والوں کی حالت قابل رحم ہوگئی تھی اور اب تک یہ طاقتیںسنبھل نہیں پائیں نتیجہ میں وہ آسام میں این آر سی کی نگرانی کرنے والے آئی اے ایس آفیسر پرتیک ہاجیلا پر تنقیدیں کرنے لگے اور اب ان کا تبادلہ بھی بناء کوئی وجہ بتائے سپریم کورٹ کی ہدایت پر مدھیہ پردیش کردیا گیا ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=duIiwyRDBxo

Photos: siasat.com

ان خیالات کا اظہار ممتاز سماجی و انسانی حقوق کی جہد کار اور سٹیزنس فار جسٹس اینڈ پیس کی سکریٹری جنرل تیستا سیتلواد نے’ این آر سی کا مسئلہ اور حل ‘ کے زیر عنوان روز نامہ ’سیاست‘ کے محبوب حسین جگر ہال میں منعقدہ خصوصی اجلاس میں کیا۔ ایڈیٹر ’سیاست‘ جناب زاہد علی خاں نے صدارت کی جبکہ جناب افتخار حسین سکریٹری فیض عام ٹرسٹ ، جسٹس ( ریٹائرڈ ) ای اسمعیل اور سی پی آئی کے سابق ایم پی عزیز پاشاہ نے مہمانان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ تیستا ستیلواد نے 2002 کے گجرات فسادات میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے خلاف آواز اُٹھاکر اس وقت کے چیف منسٹر اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی اور امیت شاہ کے ساتھ سنگھ پریوار کی نیندیں حرام کردیں تھیں متاثرین کی قانونی امداد کے ذریعہ طاقتور و بااثر سیاستدانوں و اعلیٰ سیول و پولیس عہدیداروں پر ہیبت طاری کردی تھی ۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت این آر سی کے نام پر خوف و دہشت پیدا کررہی ہے ایسے میں عوام بالخصوص اقلیتوں، دلتوں، خواتین اور قبائیل کو خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ان تمام کو یہ جان لینا چاہیئے کہ عوام کو وہی لوگ ڈراتے ہیں جن کے دلوں میں اپنے گناہوں و جرائم کیلئے کبھی نہ کبھی بدترین انجام سے دوچار ہونے کا خوف ہوتا ہے۔ تیستا ستیلواد نے ای ۔ پریزنٹیشن کے ذریعہ آسام میں این آر سی سے متعلق اعداد و شمار بھی دکھائے اور این آر سی میں جن ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کی گئی ان کے حقوق انسانی جس انداز میں پامال کئے گئے اس بارے میں بھی تفصیلات پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ این آر سی میں جن لوگوں کے نام شامل نہیں کئے گئے وہ ناخواندہ، خطِ غربت سے نیچے زندگی گذارنے والے اور ایسے لوگ ہیں جن کی کسی نے رہنمائی بھی نہیں کی۔

حد تو یہ ہے کہ دستاویزات اکٹھا کرنے اور گواہوں کوفارنر ٹریبونل لانے لے جانے اور دیگر اُمور پر فی خاندان 60 ہزار روپئے تا 1.6 لاکھ روپئے کے مصارف آئے اور غریب آسامی باشندوں نے اپنی زمین و جائیداد اور مکانات وغیرہ فروخت کرکے یہ اخراجات پورے کئے۔ تیستا ستیلواد کے مطابق آسام چونکہ بنگلہ دیش سے متصل ہے اس لئے وہاں این آر سی کو مذہبی و لسانی رنگ دیا گیا اور اکثر لوگوں نے این آر سی کے عمل میں مذہبی و لسانی تعصب برتے جانے کی شکایات بھی کی۔ این آر سی کو انہوں نے 1979 تا1985 آسام میںمقامی و بیرونی شہریوں کے نام پر چلائی گئی اور خون ریز و پُرتشدد تحریک سے جوڑتے ہوئے بتایا کہ 1985 میں راجیو گاندھی اور آسام گنا پریشد اور آسو کے درمیان ایک معاہدہ طئے پایا اس کو بہانہ بناتے ہوئے 2009 میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جاتی ہے جس پر سپریم کورٹ حکومت سے یہ دریافت کرتا ہے کہ آخر اس معاہدہ پر عمل آوری کیوں نہیں کی گئی ۔ بس یہیں سے آسام میں این آر سی کا عمل شروع ہوتا ہے جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی سے کہیں زیادہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اس بارے میں چیخ وپکار کررہے ہیں کہ وہ سارے ملک میں این آر سی نافذ کرکے رہیں گے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے آسام کے اُن 19 لاکھ سے زائد باشندوں کو کہاں رکھا جائے گا جن کے نام این آر سی کی قطعی فہرست سے حذف کردیئے گئے۔ حد تو یہ ہے کہ ہندوستانی فوج میں نمایاں خدمات انجام دینے والے محمد ثناء اللہ اور دوسرے جانثاروں کے نام بھی نکال دیئے گئے جن میں سابق صدر جمہوریہ فخر الدین علی احمد اور آسام کے پہلے ڈپٹی اسپیکر کے رشتے دار بھی شامل ہیں۔ کہیں باپ کا نام رکھا گیا تو بچوں کے نام حذف کردیئے گئے۔ ماںکا نام شامل کیا گیا بیٹیوں کے نام غائب کردیئے گئے نتیجہ میں کم از کم 66 لوگوں نے خودکشی کرلی یا قلب پر حملوں کے باعث فوت ہوگئے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ این آر سی کے عمل میں کتنی خامیاں ہیں۔ سیتلواد کے مطابق شائد حکومت بھی نہیں جانتی کہ این آر سی کی بنیاد کیا ہے ۔ تیستا ستیلواد کے مطابق لیگل ڈاکومنٹس ( قانونی دستاویزات ) اور شہریت ثابت کرنے والی دوسری Linkage Documents کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ دستاویزات کی A اور B لسٹ طلب کی جارہی ہے۔ آپ کی ریاست میں این آر سی ہو یا نہ ہو اپنے دستاویزات بشمول اسکول و کالج ، یونیورسٹیز کے اسنادات، پاسپورٹ، ووٹر آئی ڈی، آدھار کارڈ، زمین کے کاغذات، گاؤں کی دستاویزات وغیرہ سلیقہ مندی سے جمع رکھیں۔ ویسے بھی اگر غیر بی جے پی حکومتیں این آر سی نہ کروانے قرارداد منظور کرتی ہیں تو اچھا ہوگا۔ واضح رہے کہ کہ ایڈیٹر ’سیاست‘ جناب زاہد علی خاں نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ ایک قرارداد تیار کرکے غیر بی جے پی ریاستوں کی حکومتوں کو روانہ کی جائیگی جس میں مطالبہ کیا جائیگا کہ اسمبلی میں این آر سی نافذ نہ کرنے کی قرارداد منظور کی جائے۔ حاضرین نے ایڈیٹر ’سیاست‘ کی تجویز کا ہاتھ اُٹھاکر خیرمقدم کیا۔