ایران میں شاہ کا ویران محل بالآخر میوزیم میں تبدیل ۔

,

   

تہران ۔ اپنا ملک چھوڑ کر 1979میں فرار ہونے سے قبل ایران کے شاہ جہاں پر آخری پناہ گزین تھے وہ ایک البرز پہاڑوں کے مد مقابل ایک عالیشان محل تھا ۔ وہ مقام ایرانی لوگ جانے کا خواب بھی نہیں دے سکتے ‘ وہ ایک ایک ڈالر کے قریب کی قیمت میں ہے۔نیاوران پیالیس جو 27ایکڑ پر مشتمل پلاٹ ہے اب عوام کے لئے کھول دیاگیاہے جہاں پر شاہ نے چالیس سالوں کے قریب تک عالیشان آرام کی زندگی گذاری تھی۔

چہارشنبہ کے روز شاہ محمد رضا پہلاوی کی ملک سے روانگی کے چالیس سال کا عرصہ گذر گیاہے ‘مذکورہ پیالس ان کے لئے اور زیادہ اہمیت کا حامل ہوجائے گا۔ احتجاجیوں کے ہمراہ نوجوانی کے عالم میں پالیس پر دھاوا بولنے والے جمال شاہ حسینی نے کہاکہ ’’ ہم وہی کریں گے جو اب تک کرتے آرہے ہیں‘ ہم ایک نظریہ کی پیروی کرہے ہیں‘‘

۔قجر کے دور حکومت کی ایران کی قدیم تاریخ کے دوران 1800کے دہے میں جب پہاڑو ں پر بادشاہت نے گرما ئی دنوں کے لئے ایک پیالس تعمیرکی تھی۔

سال1960کے دہے میں کیونکہ تہران تیل کی دولت سے مالامال ہورہا تھا ‘ مذکورہ شاہ کا مارمار پیالس جو بڑے گرانڈ بازار کے قریب شہر کے قریب بنایاگیاتھا اس کی وجہہ سے ان کے دور حکمرانی کے دوران بادشاہ کے زندگی کے طور طریقوں کو لے کر بڑی سیاسی کشیدگی کا سبب بنا تھا‘ اس میں 1965کے دوران باشادہ پر مذہبی منافرت سے متاثرہ ایک محافظ کا قاتلانہ حملہ بھی شامل ہے۔

اس کے باوجود شاہی خاندان کو پناہ گزینوں کے طور پر نیوران پیالیس میں ہی رکھا گیاتھا۔ شاہ کی تیسری بیوی ‘ رانی فراہ ایک ارکیٹچکر کی طالب علم تھی ۔ اس نے پیالیس کے صحن کی تزائن نو کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ کئے تھے۔

پیالس کا ایک حصہ دنیاکی ایک کھڑکی کے طور پر اس لئے بھی مشہور ہوگیاتھا کیونکہ وہاں پر رانی فراہ کی خریدی ہوئی آرٹ پر مشتمل ایک خانگی آرٹ گیلری قائم کی گئی تھی ۔ شاہ چہل قدمی کے ساتھ ساتھ اس کی سڑکوں پر برق رفتاری کے ساتھ اپنی کئی اسپورٹس کاریں بھی دوڑا یا کرتے تھے۔

ایک پائلٹ جس نے کبھی کوئی ہوائی جہاز نہیں آڑایاتھا کشیدگی کم کرنے کے نام پر کشیدگی میں اضافہ کرتے تھے۔ پہلواوی سلطنت کے اطراف واکناف میں کشت کرنے والے بڑے پیمانے پر پھیلائے جانے والی افواہیں بادشاہت کے خلاف غصہ کی وجہہ بنیں۔

اور یہ کام ایت اللہ خمینی جنھیں شاہ نے انقلاب کا نعرے لگانے کی پادش میں ملک بدر کردیاتھا بیرون ملک سے کیا کرتے تھے۔ جب1979میں ان پر دباؤ بڑھنے لگا ‘ اس وقت خفیہ طور سے شاہ کینسر کے مرض کا مقابلہ کررہے تھے اخراج کی وجہہ سے وہ یقینی طور پر مر جاتے ۔

شاہ 6جنوری1979کو آخری مرتبہ بذریعہ ہیلی کاپٹر پیالس سے روانہ ہوگئے اور اس کے بعد دوبارہ کہیں دیکھائی نہیں دئے۔انقلاب کی صورت 11فبروری 1979کو تھم گئی ‘ احتجاجیوں نے کمپاونڈ سے باقی سکیورٹی گارڈس کو دھکے مار کر نکال دیا۔

ان میں شاہ حسینی اب جو میوزیم کے 63سالہ معمر گارڈ ہیں بھی شامل تھے۔ انہیںیاد ہے کہ کس طرح پیالیس کی دیواروں پر لکھ دیاگیاتھا کہ ’’ خمینی کی پیغام‘‘ سے ’’ شام کی موت تک‘‘۔اے پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’’ جب ہم ائے تو یہ ایمپریل گارڈس کے قبضے میں تھا۔

ہم نے انہیں سادہ کپڑے دئے جب وہ خوف سے تھرارہے تھے‘‘۔انہوں نے کہاکہ ’’ وہ سمجھ رہے تھے ہم کمیونسٹ ہیں جو پیالس پر قبضہ چاہتے ہیں ۔ ہم نے ان سے کہاکہ ہم کمیونسٹ نہیں خمینی کے حمایتی ہیں جو نیوران کے پڑوسی ہیں‘پھر ہم نے پیالس پر قبضہ کرلیا‘‘۔

آج عمارت کو آنے والے شاہ کے سابق محل میں گھومتے ‘ پھرتے ہیں اور اپنے پیچھے چھور کر گئے کپڑے ہیں۔

ایک کمرے میں شاہ کے کپڑے ‘ یونیفارم اور تلوار لٹکی ہوئی ہے۔

دو تصوئیریں باقی ہیں جس میں شاہ او ران کی بیوی دیکھی جاسکتی ہے۔دوسری عمارت میں شاہ کی بیش قیمتی اٹوموبائیل ہیں ‘ جس رول رائس ‘ اور پانچ مرسڈیز ‘ چھ موٹر سیکل اور ایک اسنو موبائیل شامل ہیں ۔ ایران کے دیگر میوزیم میں مزید چیزیں رکھی گئی ہیں۔