ایران پر اسرائیل کا حملہ

   

حوصلے سے حملوں پر فتح پانا چاہیئے
مشکلوں میں ہرقدم پر مسکرانا چاہیئے
صیہونی اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ۔ حالانکہ یہ مکمل جنگ کی نوعیت کا حملہ نہیں تھا تاہم اس حملے کے ذریعہ اسرائیل نے اپنے منصوبے اورعزائم کو ظاہر کردیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف حملے کرے گا اور اپنے عزائم کی تکمیل کرے گا ۔ ایران کی نیوکلئیر تنصیبات کو نشانہ بنانے کے منصوبے اسرائیل کے دیرینہ منصوبے ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ ایران کے نیوکلئیر ٹھکانوں کو تباہ کردے کیونکہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ ایران کی نیوکلئیر سرگرمیاں ہی اس کیلئے زیادہ خطرہ بن سکتی ہیں۔ حالانکہ امریکہ اور دوسرے ممالک کادعوی ہے کہ انہوں نے اسرائیل کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ایران کی نیوکلئیر تنصیبات کو نشانہ بنانے سے گریز کرے ۔ تاہم یہ تمام ممالک کا مشترکہ منصوبہ ہے کہ ایران کی نیوکلئیر تنصیبات کو نشانہ بناتے ہوئے اس کی نیوکلئیر صلاحیتوںکو تلف کردے ۔ایران اپنی تنصیبات کے دفاع کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ ایران کو نشانہ بناتے ہوئے اسرائیل سارے علاقہ کو جنگ میںجھونکنا چاہتا ہے ۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ اسے اپنے صیہونی عزائم کی تکمیل کا کوئی نہ کوئی بہانہ ملتا رہے اور پھر وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے اقدامات کرتا جائے ۔ وہ یکے بعد دیگرے علاقوں کو نشانہ بناتے ہوئے بے تحاشہ تباہی مچا رہا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ سارے علاقہ میں اس کا تسلط قائم ہوجائے ۔ جس طرح سے فلسطین میں اسے پناہ ملی تھی اور پھر اس نے بتدریج سارے علاقہ پر اپنا کنٹرول مکمل کرلیا ہے اور جس کو چاہے اور جب چاہے نشانہ بنا رہا ہے اسی طرح وہ سارے علاقہ کو اپنے تصرف میں لانا چاہتا ہے ۔ اس کے ان ہی عزائم کی وجہ سے ایران اس کو روکنا چاہتا ہے ۔ اسرائیل نے سب سے پہلے 7 اکٹوبر کے حملوں کو عذر اور بہانہ بناتے ہوئے غزہ پر غیرانسانی جنگ مسلط کی اور وہاں تباہی کی وہ داستان رقم کی کہ کسی جنگ میں بھی اتنا نقصان نہیں ہوا ہوگا ۔ ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا ۔ ہزاروں بچے اس دنیا سے چلے گئے ۔ لاکھوں خاندان اجڑ گئے ۔ سارا علاقہ کھنڈر میں تبدیل ہوگیا ۔ دواخانوں اورتعلیمی اداروں کو تک بخشا نہیں گیا اورغزہ کے فلسطینیوں پر قیامت صغری برپا کی گئی تاہم ساری دنیا خاموش تماشائی بنی رہی ۔
غزہ کے بعد اسرائیل نے لبنان کو منتخب کیا اور وہاں بھی تباہی کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو شہیدکردیا گیا ۔ حماس کے سربراہ اسمعیل ہنیہ کو تہران میں شہید کردیا گیا ۔ حماس کے دوسرے سربراہ یحیی سنوار کو فضائی حملے میں شہید کردیا گیا ۔ کچھ دوسروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے ۔ ان ساری کارروائیوں کے ذریعہ اسرائیل اپنے منصوبوں کی راہ میںرکاوٹ بننے والوں کو ختم کرتا چلا جا رہا ہے ۔ جس کسی گوشے سے مزاحمت ہوتی ہے اس کو نشانہ بناتے ہوئے ختم کیا جا رہاہے ۔علاقہ کے ممالک میں ایران وہ واحد ملک ہے جواسرائیل کے منصوبوں کی نفی کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ اسرائیل کو اسی اختلاف کی وجہ سے ایران کھٹکتا ہے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیںہے ۔ دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کئی برسوں سے چلی آ رہی ہے اور اسرائیل اسی کو وجہ بناتے ہوئے ایران کو بھی نشانہ بنانا چاہتا ہے ۔ اسرائیل نے تاحال جن نشانوں کا انتخاب کیا تھا وہ نسبتا آسان رہے تھے اور باضابطہ کوئی ملک نہیں تھا ۔ ایران ایک بڑا ملک ہے اور اگر اس کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ بات طئے ہے کہ یہ مسئلہ صرف دو ملکوں تک محدود نہیں رہے گا اور اس کے نتیجہ میں ایک علاقائی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے اور یہ علاقائی جنگ نہ صرف طوالت بلکہ وسعت بھی اختیار کرسکتی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو نقصانات ہونگے وہ ناقابل بیان اور ناقابل تلافی ہوسکتے ہیں۔ اسرائیل اور اس کے حواری مغربی ممالک اور امریکہ اس صورتحال کو اچھی طرح سے سمجھتے بھی ہیں۔
ایران ۔ اسرائیل کشیدگی میں امریکہ ‘ برطانیہ اور ان کے حواری ممالک آگ بھڑکانے کا کام کر رہے ہیں۔ جہاں نہتے فلسطینیوںاور لبنانی عوام کو لگاتار شہید کیا جا رہا ہے اس پر کوئی لب کشائی کرنے کو تیار نہیں ہے اور اسرائیل کی مدافعت میں ساری دنیا اتر آتی ہے ۔ خاص طور پر امریکہ ‘ اسرائیل کی کٹھ پتلی بنا ایران کو مسلسل دھمکاتا رہتا ہے ۔ یہ انتہائی دھماکو صورتحال ہے اور اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ دنیا کے انصاف پسند ممالک اور عالمی اداروں کو اس معاملہ میں پہل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم علاقائی جنگ کی وجہ نہ بن جائیں اور دنیا کو بے تحاشہ تباہی کا سامنا کرنا نہ پڑے ۔