ایران کیخلاف پابندیوں کا مطالبہ: امریکہ کی ’تاریخی ناکامی‘

   

نیویارک : ایران پر عالمی پابندیاں بحال کرنے کی کوشش کے معاملے میں امریکہ مزید تنہا ہوگیا اور سلامتی کونسل کے 13 رکن ممالک نے تہران پر پابندیاں بحال کرنے کی مخالفت کردی۔ ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے گزشتہ روز اقوام متحدہ میں ایک خط پیش کیا تھا جس میں ایران پر 30 روز کے اندر عالمی پابندیاں بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔تاہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک میں سے 13 نے ایران پر پابندیاں بحال کرنے کی مخالفت کردی۔امریکہ کے اہم اتحادی برطانیہ، فرانس، جرمنی اور بیلجیئم کے علاوہ چین، روس، ویتنام، نائجر، سینٹ وِنسینٹ اینڈ گریناڈائنز، جنوبی افریقہ، انڈونیشیا، استونیا اور تنزانیہ نے امریکی مطالبے کی مخالفت میں جوابی خط لکھا ہے۔ان ممالک نے اپنے ردعمل میں کہا کہ جس جوہری معاہدے سے امریکہ دو سال قبل دستبردار ہوچکا ہے اس کو استعمال کرتے ہوئے واشنگٹن کا یہ اقدام غیرقانونی ہے۔امریکہ، ایران پر عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 ء کے نیوکلیرمعاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتا ہے، معاہدے کے تحت تہران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنا تھا اور اس کے بدلے اسے پابندیوں میں ریلیف فراہم کیا جانا تھا۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو ’بدترین معاہدہ‘ قرار دیتے ہوئے 2018 ء میں اس سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔ روس اور چین سمیت دیگر ممالک ایران پر پابندیاں بحال کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔پومپیو نے ایران پر پابندیوں کی مخالفت کرنے پر روس اور چین کو دوبارہ تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر انہوں نے ایران پر اقوام متحدہ کے اقدامات کی مخالفت کی تو امریکہ خود ایکشن لے گا۔ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ روز اپنے مطالبے پر بیشتر ممالک کی مخالفت کر مسترد کرتے ہوئے ایران پر اسنیپ بیک کیلئے 30 روز کی مہلت کا اعلان کیا تھا۔ایران کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی برائن ہُک نے پریس بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ ’’ہمیں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ ایران اپنے رضاکارانہ نیوکلیر وعدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور صورتحال اس پر پابندیاں بحال کرنے کی حد تک پہنچ چکی ہے، اس لیے ہم نے اسنیپ بیک کا آغاز کردیا ہے۔واضح رہے کہ اسلحے کی خریداری سے متعلق یہ پابندی ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے مابین 2015 میں ہونے والے نیوکلیرمعاہدے کے تحت 18 اکتوبر کو ختم ہونے والی ہے۔