تخلیقِ کائنات کا مقصد کچھ اور تھا
انساں نے لیکن اسکو جہنم بنادیا
مشرق وسطی میں گذشتہ 12 دن سے جاری جنگ بالآخر اب تھمنے لگی ہے ۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیل ۔ ایران جنگ بندی کا اعلان کیا اور یہ دعوی کیا کہ دونوںممالک نے مکمل جنگ بندی سے اتفاق کیا ہے ۔ ابتداء میںایران نے جنگ بندی کی تجویز سے انکار کردیا تھا تاہم بعد میں اس نے بھی جنگ بندی کی توثیق کردی ۔ حالانکہ جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے دونوں فریقین پر جنگ بندی کی خلاف ورزی اور میزائیل داغنے کے الزامات عائد ہوئے ہیں تاہم یہ ضرور ہے کہ باضابطہ جنگ بندی لاگو ہوچکی ہے اور گذشتہ 12 دن سے جاری فوجی کارروائیوں کا سلسلہ رک گیا ہے ۔ کل رات ایران کی جانب سے قطر اور عراق میںامریکی ٹھکانوں پر حملے کئے گئے تھے اور اس کے چند ہی گھنٹوں میں قطر کی جانب سے جنگ بندی کی کوششوں کا آغاز کیا گیا اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کردیا ۔اب جبکہ جنگ رک گئی ہے تو جنگ کے تینوں ہی فریقین امریکہ ‘ اسرائیل اور ایران نے اپنی اپنی کامیابی اور بالادستی کا دعوی شروع کردیا ہے ۔ امریکہ نے اپنے بم حملوں کے ذریعہ عراق کی نیوکلئیر تنصیبات کو مٹادینے کا دعوی کیا ہے تو اسرائیل نے بھی یہ دعوی کردیا ہے کہ جنگ سے اس کے جو مقاصد تھے وہ پورے ہوگئے ہیں۔ ایران نے بھی اس جنگ میں اپنی کامیابی کا دعوی کیا اور اس کا کہنا ہے کہ ایرانی فوجی کارروائیوں کے بعد اسرائیل اپنے دفاع میں ناکام ہوگیا تھا اور اس کی ایماء پر ہی امریکہ نے جنگ بندی کا اعلان کیا ہے ۔ غرض یہ کہ تینوں ہی فریقین نے اپنی اپنی کامیابی کا دعوی کرتے ہوئے اب جنگ کے بعد کے ماحول میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششیں بھی شروع کردی ہیں۔ امریکہ کا یہ استدلال ہے کہ اس نے ایران کی جوہری تنصیبات کو مٹانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے ۔ اسرائیل کا یہ دعوی ہے کہ اس نے ایران کی نیوکلئیر صلاحیتوں کو ختم کرنے کے اپنے مقصد کو پورا کرلیا ہے ۔ اسی وجہ سے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ ایران نے تاہم اپنی نیوکلئیر صلاحیت تلف ہونے سے واضح طور پر انکار کردیا ہے ۔
امریکہ اور اسرائیل بھلے ہی اپنے اپنے مفادات کی تکمیل اور جنگ میں کامیابی کا دعوی کریں لیکن جہاں تک ایران کی بات ہے تو اس نے دنیا کے سامنے عزم و حوصلے کی مثال قائم کردی ہے ۔ اس نے دنیا کی بڑی طاقت امریکہ کے حملوں سے خوفزدہ ہونے کی بجائے اس کا مقابلہ کرنے کا جذبہ دکھایا ۔ امریکی ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے جوابی کارروائی کا دلیرانہ اقدام کیا تھا ۔ اس کے علاوہ اسرائیل جیسی صیہونی طاقت کے دانت کھٹے کرنے میںبھی ایران نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ اسرائیل کے نام نہاد آئرن ڈوم کے دنیا بھر میں تذکرے کئے جاتے تھے کہ وہاں کوئی حملہ نہیں کیا جاسکتا ۔ کوئی پرندہ پر نہیں مارسکتا ۔ تاہم اسرائیل کی یہ حماقت بھی دھری کی دھری رہ گئی جب ایرانی میزائیلوں نے اسرائیل میں بھی تباہی مچائی ۔ اسرائیل کی بلند و بالا عمارتوں کو ملیامیٹ کردیا ۔ اس کے حفاظتی حصار کی قلعی کھول دی ۔ کئی عمارتوں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ۔ یہاں وہی مناظر دنیا نے دیکھے جو اسرائیل نے غزہ میں برپا کئے تھے ۔ اسرائیل عوام میں جو خوف اور دہشت پیدا ہوگئی تھی وہ ناقابل بیان کہی جاسکتی ہے ۔ اسرائیلی عوام اپنے پرتعیش مکانات اور گھروں کو چھوڑ کر بنکروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے ۔ ایران کا یہ عزم و حوصلہ ان مسلم ممالک کیلئے ایک مثال بن گیا ہے جو امریکہ کے رحم و کرم پر اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ وہ امریکہ کی مخالفت کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتے ۔ امریکہ کے خوف سے وہ نہتے فلسطینیوں کیلئے بھی آواز اٹھانے سے گریزاں ہیں ۔ تاہم ایران نے جو عزم و حوصلہ کا درس دیا ہے وہ مثالی کہا جاسکتا ہے ۔
بھلے ہی امریکہ اور اسرائیل اپنی اپنی کامیابی کا دعوی کرلیں اورا پنے اپنے عوام میں کامیابی کا ڈھول بجالیں لیکن حقیقی کامیابی ایران کی کہی جاسکتی ہے جس نے نہ جنگ شروع کی تھی اور نہ ہی جنگ بندی کیلئے کوئی پہل کی تھی ۔ ایران نے کہا تھا کہ اسرائیل اور امریکہ نے یہ جنگ شروع کی ہے اور اس کا خاتمہ ایران کرے گا ۔ امریکی ٹھکانوں پر ایرانی حملوں کے فوری بعد جنگ بندی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ایران نے اپنے حملوں سے مخالفین کو جنگ بندی کا فیصلہ کرنے پر مجبور کیا ہے اور اسی نے جنگ ختم کی ہے ۔