زندگی یوں تو بہت دور نظر آتی ہے
اک جھپکتے ہی پلک عمر گزر جاتی ہے
اسرائیل اب ایران کے تعلق سے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کا اظہار کر رہا ہے اور ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ جو آثار و قرائن ہیں اور جو اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں ان کے مطابق اسرائیل نے اپنے طور پر ایران کی نیوکلئیر تنصیبات پر حملہ کرنے کی تیاریاںشروع کردی ہیں اور اپنے منصوبہ کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے مشرق وسطی میںاپنی موجودگی کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ علاقہ کے کچھ ممالک سے اپنے غیر ضروری سفارتی عملہ کوواپس طلب کرلیا ہے ۔ کچھ دوسرے عملہ کو بھی اجازت دیدی ہے کہ وہ اگر چاہیں تو امریکہ واپس ہوسکتے ہیں۔ ایران کے ساتھ امریکہ کی جوہری معاہدہ کیلئے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے ۔ اب تک کچھ ادوار کی بات چیت ہوچکی ہے ۔ تاہم یہ تاحال نتیجہ خیز نہیں ثابت ہوئی ہے ۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ایران یورانیم کی افزودگی کا عمل روک دے ۔ ایران بات چیت کے ذریعہ جوہری معاہدہ کو یقینی بنانے کیلئے تیار ہے ۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ معاہدہ کے بدلے میں ایران پر عائد تحدیدات کو مرحلہ وار انداز میں برخواست کرنے کی طمانیت دی جائے اور تحدیدات کی برخواستگی کو معاہدہ کا حصہ بنایا جائے ۔ امریکہ فی الحال ایسا کرنے کوتیار نظر نہیں آتا ۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ایران اس کی شرائط پر جوہری معاہدہ کیلئے تیار ہوجائے تاہم ایران نے بھی اس معاملے میں سخت موقف اختیار کیا ہوا ہے اور وہ اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہتا ہے اورا یسا کرنا ایران کا حق ہے ۔جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے تو وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو پایہ تکمیل کو پہونچانا چاہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے غزہ کی آبادی کا خاتمہ کرنے کا منظم انداز میں سلسلہ شروع کیا ہے ۔ اس نے سارے غزہ شہر کو ایک طرح سے ملبہ کے ڈھیر اور نہتے و بے گناہ فلسطینیوں کے قبرستان میں تبدیل کردیا ہے ۔ اس کے باوجود دنیا نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور انسانیت کو شرمسار اور رسواء کرنے والے اسرائیل کے جرائم میں اپنی حصہ داری ادا کی جا رہی ہے ۔ امریکہ تو اسرائیل کے منصوبوں کا یقینی طور پر حصہ دار بنا ہوا ہے اور اسرائیل کی تائید کر رہا ہے ۔
عالمی برادری اور خاص طور پر عربدنیا کی خاموشی کے نتیجہ میں اسرائیل کے عزائم بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو عملی جامہ پہنانے میںلگا ہوا ہے ۔ وہ اپنے منصوبوں پر یکے بعد دیگر عمل کرتا چلا جا رہا ہے اور امریکہ اس کیلئے ساری دنیا کے سامنے ڈھال بنا ہوا ہے ۔ اسرائیل نے جس طرح غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی مہم چلائی ہوئی ہے اسی طرح اب وہ ایران کے ساتھ تعلقات کو کشیدہ کرتے ہوئے ایران کو نشانہ بنانے کے ارادہ ظاہر کر رہا ہے ۔ اسرائیل کو ہمیشہ سے ایران کے جوہری پروگرام پر اعتراض رہا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ ایران نیوکلئیر پروگرام کو ترک کردے ۔ حالانکہ خود اسرائیل کے پاس نیوکلئیرہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ ہے جو نہ صرف علاقہ کیلئے بلکہ ساری دنیا کیلئے خطرہ بنا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ بھی چاہتا ہے کہ ایران یورانیم کی افزودگی کا عمل روک دے تاکہ جوہری پروگرام میں پیشرفت ہونے نہ پائے ۔ ایران اپنے مفادات اور اپنے مستقبل کی حفاظت کیلئے اپنے جوہری پروگرام کو جاری رکھے ہوئے ہے ۔ امریکہ جوہری منصوبے کے بدلے میںایران پر عائد تحدیدات کو برخواست کرنے بھی تیار نہیں ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ بھی بالواسطہ طورپر اسرائیل کے منصوبوںکو عملی طور پر ممکن بنانے کیلئے کوشش کر رہا ہے ۔ موجودہ حالات میں سارے مشرق وسطی کا علاقہ ایک طرح سے بحران کا شکار ہوتا جا رہا ہے اور اگر اسرائیل اپنے جارحانہ منصوبوںپر عمل کرتا ہے صورتحال دھماکوہوسکتی ہے ۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور دونوںملکوںکے مابین کشیدگی اکثر و بیشتر دیکھی گئی ہے ۔ اگر ایران کے تعلق سے اسرائیل اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرتا ہے اور نیوکلئیر تنصیبات کو حملوں کا نشانہ بناتا ہے تو ساری دنیا کیلئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں کیونکہ ایران نے بھی انتباہ دیا ہے کہ اس کے پاس بھی اسرائیل کی نیوکلئیر تنصیبات کی فہرست موجود ہے اور انہیں بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔ اس صورتحال میں عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل پر لگام لگائیں اور مشرق وسطی کی صورتحال کو دھماکو ہونے اور کسی جنگ کے امکان کو ختم کرنے کیلئے سرگرم ہوجائیں ۔