ایس آئی آر ‘ ووٹرس کی چوکسی ضروری

   

Ferty9 Clinic

کبھی یک بہ یک توجہ کبھی دفعتاً تغافل
مجھے آزما رہا ہے کوئی رُخ بدل بدل کر
بالآخر الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک گیر سطح پر ووٹر لسٹ پر خصوصی نظرثانی کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ بہار میں ایس آئی آر کے بعد ایک طرح سے یہ خصوصی نظرثانی کا دوسرا مرحلہ کہا جاسکتا ہے ۔ الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق ٹاملناڈو اور مغربی بنگال میں بھی خصوصی نظرثانی کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ انڈمان و نکوبار ‘ چھتیس گڑھ ‘ گوا ‘ گجرات ‘ کیرالا ‘ لکشدویپ ‘ مدھیہ پردیش ‘ پڈوچیری اور راجستھان میں ووٹر لسٹ کی تنقیح اور از سر نو تیاری کی جائے گی ۔ یہ اشارے چند ماہ قبل سے ہی مل رہے تھے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک بھر میں ایس آئی آر کا عمل مرحلہ وار انداز میںشروع کیا جائے گا اور ابتدائی طور پر دس ریاستوں کا احاطہ کیا جائیگا ۔ کمیشن نے مرکزی زیر انتظام علاقوں کے بشمول 12 ریاستوں میں اس عمل کو شروع کرنے کا اعلان کیا ہے اور بہار اسمبلی انتخابات کے بعد یہ عمل شروع کردیا جائے گا ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ محض آدھار کارڈ کی بنیاد پر شہریت ثابت نہیں ہوتی کمیشن کی جانب سے تفصیلی دستاویزات کی ضرورت کا مابعد اعلان ہوسکتا ہے ۔ اہم کمیشن نے اس بات کو ملحوظ نہیں رکھا کہ بہار میں ہوئے ایس آئی آر کے عمل کے دوران سپریم کورٹ نے ووٹرلسٹ میں ناموں کی شمولیت کیلئے آدھار کارڈ کو قبول کرنے کی ہدایت دی تھی ۔ بحالت مجبوری کمیشن کی جانب سے وہاں تو قبول کرلیا گیا تاہم دوسری ریاستوں میں اس کو شہریت کے ثبوت کے طور پر قول نہ کرنے کا منصوبہ ظاہر کیا ہے ۔ چونکہ بہار کا تجربہ سارے ملک کے سامنے ہے کہ کس طرح زندہ افراد کے ناموں کو مردہ قرار دیتے ہوئے ووٹرلسٹ سے خارج کردیا گیا تھا اور مابعد سپریم کورٹ کی مداخلت کے نتیجہ میں دوبارہ ناموں کو شامل کرنا پڑا ہے ۔ ایسے میں ملک بھر میں عوام کو اس معاملہ میں چوکسی برتنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے ہ ان کے نام کسی بھی بہانے سے ووٹرلسٹ سے خارج ہونے نہ پائیں۔ جو حقیقی ووٹر ہیں ان کے نام کسی بھی قیمت پر خارج نہیں ہونے چاہئیں اور جو دوہرے نام ہیں وہ کسی بھی قیمت پر فہرست میں موجود نہ رہیں۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ووٹرلسٹ پر خصوصی نظرثانی کا عمل انتہائی پیچیدہ کہا جاسکتا ہے اور اس کیلئے عملہ کو مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام وقت طلب بھی ہے تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے جس طرح سے بہار میں کام کیا گیا ہے اس سے کئی سوال پیدا ہوئے ہیں اور عوام کو مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے ۔ یہ عمل انتہائی سنجیدگی اور پوری توجہ کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اڈھاک بنیادوں پر محض بی ایل اوز کی خدمات کو حاصل کرتے ہوئے یہ کام روا روی کے انداز میں نہیں کیا جاسکتا ۔ الیکشن کمیشن کئی طرح کی شرائط اور پابندیاں بھی عائد کرسکتا ہے اور یہ امکانات بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ کمیشن کی شرائط کے خلاف سیاسی جماعتیں عدالتوں سے رجوع ہونگی ۔ ایسے میں عوام کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس معاملے میں پوری طرح سے چوکسی کا مظاہرہ کریں اور کسی طرح کی کوتاہی نہ برتی جائے اور نہ ہی کسی طرح کے تغافل سے کام لیا جائے ۔ اس کام میں معمولی سے بھی کوتاہی مسائل اور مشکلات کا سبب بن سکتی ہے ۔ اس کیلئے عوام کی چوکسی کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔ اپنے اور اپنے افراد خاندان کے ناموں کی شمولیت کو یقینی بنانے کیلئے ہر طرح سے تیاری کی ضرورت ہے اور خصوصی نظرثانی کا عمل مکمل ہونے اور قطعی فہرست کی اشاعت تک ہر مرحلہ پر چوکسی سے کام کیا جانا چاہئے تاکہ کسی بھی حقیق ووٹر کا نام فہرست سے غائب ہونے نہ پائے ۔ کمیشن کے عملہ کے ساتھ لگاتار رابطے کرتے ہوئے نقائص سے پاک فہرست کی تیاری کو یقینی بنایا جانا چاہئے ۔
جہاں تک سیاسی جماعتوں کا سوال ہے تو انہیں بھی اس معاملے میں عوام کی رہنمائی اور رہبری کیلئے تیار رہنا چاہئے ۔ عوام میں شعور بیدار کرنے کیلئے کیمپس منعقد کئے جانے چاہئیں اور عوام کو اس عمل کی اہمیت اور افادیت سے واقف کروانے کی بھی ضرورت ہے ۔سیاسی جماعتوں کا مستقبل عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے ایسے میں سیاسی جماعتوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حقیقی ووٹرس کے ناموں کی شمولیت کو یقینی بنانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھیں اور کوئی کوتاہی نہ برتیں۔ ضرورت پڑنے پر عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکٹایا جائے اور خاص طور پر ایک سے زائد اندراجات کو حذف کروایا جائے ۔