ایس آئی آر یا این آر سی ؟

   

نحوست پس و پیش منڈلا رہی ہے
چپ و راست سے یہ صدا آرہی ہے
بہار اسمبلی انتخابات سے قبل وہاں ووٹر لسٹ پر خصوصی نظرثانی ( ایس آئی آر ) کا عمل شروع کیا گیا تھا ۔ اس دوران لاکھوںافراد کے نام ووٹر لسٹ سے خارج کردئے جانے کے انکشافات ہوئے تھے ۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ زندہ افراد کو مردہ قرار دے کر ان کے نام بھی فہرست سے خارج کردئے گئے ہیں۔ کچھ افراد کے پاس ووٹر لسٹ میں اپنے ناموں کی شمولیت یا برقراری کیلئے کوئی دستاویزات موجود نہیں تھی ۔ یہ مسئلہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا ۔ اس پر عدالت میں کئی مرتبہ سماعت ہوئی ۔ بہار میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر ہی ووٹر لسٹ ناموں کی شمولیت کیلئے آدھار کارڈ کو بطوردستاویز قبول کیا گیا تھا ۔ اب الیکشن کمیشن اور خود سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ آدھار کارڈ شہریت کا ثبوت ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ مرکزی حکومت جو کچھ بھی دستاویزات شہریت کے ثبوت کے طور پر ضروری قرار دے گی وہ ایک الگ مسئلہ ہے ۔ تاہم جہاں تک ایس آئی آر کا سوال ہے تو اس کے ذریعہ شہریت ثابت کرنے کیلئے اصرار کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے کیونکہ شہریت کی جانچ کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہرگز نہیں ہے ۔ الیکشن کمیشن رہائشی پتہ کی جانچ کرتے ہوئے ووٹر لسٹ میں ناموں کی شمولیت کو یقینی بناتا ہے ۔ موجودہ حالات میں کچھ دوسرے دستاویزات کی مرکز کی جانب سے صراحت کی جاتی ہے تو ان کا جائزہ لیا جاسکتا ہے تاہم شہریت کے تعلق سے سوال کرنا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی بیرونی شہری یا در انداز کو ملک میں رائے دہی کا حق نہیں ملنا چاہئے لیکن اس بات کا تعین کرنا کہ کون ملک کا شہری ہے اور کون در انداز ہے یہ الیکشن کمیشن کا کام نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کو اپنا کام کرنا چاہئے جو ووٹر لسٹ میں ناموں کی شمولیت یا ناموں کے اخراج سے متعلق ہو۔ جہاں تک شہریت کی بات ہے تو وزارت داخلہ کا ذمہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وزارت داخلہ کی جانب سے ایس آئی آر کے نام پر ملک میں این آر سی کیا جا رہا ہے اور عوام سے ہندوستانی شہریت کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں۔ ایسا کرنے کی کم از کم ایس آئی آر میں کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ این آر سی الگ مسئلہ ہونا چاہئے ۔
اس کے علاوہ ایک اور پہلو بھی ہے کہ اگر کسی کو در انداز کہا جا رہا ہے یا کسی کو بیرونی شہری کہا جارہا ہے تو اس کا ثبوت خود حکومت اور ایجنسیوںکو پیش کرنا چاہئے کہ وہ بیرونی شہری ہیں۔ جو ہندوستانی شہری ہیں ان کی شہریت پر سوال اٹھانے اور شہریت کا ثبوت مانگے کی بجائے شہری نہ ہونے کا ثبوت ایجنسیوں اور حکومت کو پیش کرنا چاہئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایس آئی آر کے نام پر مرکزی حکومت سارے ملک میں مرحلہ وار انداز میں این آر سی پر عمل کرنے کی کوششوں کا آغاز کرچکی ہے ۔ سارے ملک میں بیک وقت این آر سی کا اعلان کرکے اگر کام کیا جاتا تو ملک بھر میں عوامی ناراضگی کی لہر پیدا ہونے کے اندیشوں کے پیش نظر ایک منظم انداز میں اورا یس آئی آر کے نام پر این آر سی لاگو کیا جا رہا ہے ۔ الیکشن کمیشن وہ کام کر رہا ہے جو در اصل وزارت داخلہ کے دائرہ کار میں آتا ہے اور اس کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ شہریت ثابت کرنے کیلئے جو کچھ بھی مروجہ طریقہ ہو وہ ضرور اختیار کیا جائے لیکن الیکشن کمیشن ایسا ہرگز نہیں کرسکتا ۔ الیکشن کمیشن کو اپنی جو واضح ذمہ داریاں ہیں ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وزارت داخلہ کو اپنے کام خود کرنے چاہئیں۔ این آر سی کا عمل اگر واقعتا کیا جا رہا ہے تو حکومت کو اس کیلئے ایس آئی آر کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ حکومت کو یہ واضح اعلان کرنا چاہئے کہ سارے ملک میںاین آر سی پر عمل کیا جا رہا ہے اور ملک کے ہر شہری کو اپنی شہریت ثابت کرنے کیلئے درکار دستاویزات جمع کروانے ہونگے ۔
ایس آئی آر کا عمل جس انداز میں آگے بڑھایا جا رہا ہے اس سے یہ اندیشے کئی گوشوں کو لاحق ہورہے ہیں کہ یہ درا صل این آر سی ہی ہے ۔ اس پر مرکزی حکومت کو وضاحت کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بھی واضح کیا جانا چاہئے کہ الیکشن کمیشن کو شہریت پر فیصلہ کرنے یا شہریت کی جانچ کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔ مرکزی حکومت اپنے طور پر اس تعلق سے کوئی اعلان کرتی ہے تو وہ ایک الگ پہلو ہوگا ۔ حکومت کو بالواسطہ انداز میں این آر سی پر عمل کرتے ہوئے عوام میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ عوام میں جو بے چینی کی کیفیت اس تعلق سے پیدا ہونے لگی ہے اس کو فوری دور کیا جانا چاہئے ۔