ایمرجنسی پر سیاست

   

مرکز میں نریندر مودی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت ایسا لگتا ہے کہ عوامی مسائل پر توجہ دیتے ہوئے بہتر حکمرانی کو رائج کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ۔ محض کانگریس کو نشانہ بنانے اور سیاست کرنے میں اسے دلچسپی رہ گئی ہے ۔ اب جبکہ لوک سبھا انتخابات ختم ہوگئے ہیں۔ نئی حکومت بن گئی ہے ۔ نئی پارلیمنٹ تشکیل پا گئی ہے ۔ آئندہ دنوں میں پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس ہونے والا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں حالات کو بہتر بنانے اور موثر اور شفاف حکمرانی کی فراہمی پر توجہ دی جانی چاہئے ۔ ملک میں یکے بعد دیگر کئی امتحانات کے پرچوں کا افشاء ہو رہا ہے ۔ نوجوانوں کا مستقبل داو پر لگا ہوا ہے ۔ اس سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے ۔ کچھ وقفہ کے بعد ہجومی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے لگا ہے ۔ عوام میں بے چینی کی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے اورا یسے میں حکومت حالات پر کنٹرول کرنے اور پرامن ماحول کو فروغ دیتے ہوئے امن و ہم آہنگی کو آگے بڑھانے کی بجائے سیاست کرنے کو ترجیح دے رہی ہے ۔ کانگریس کی جانب سے لوک سبھا انتخابات میں دستور کی حفاظت کا نعرہ دیتے ہوئے مقابلہ کیا گیا تھا ۔ اسی نعرہ نے بی جے پی کو اپنے بل پرا کثریت حاصل کرنے سے روکا ۔ عوام میں یہ شبہات پیدا ہوگئے تھے کہ واقعی بی جے پی اگر 400 نشستوں پر کامیابی حاصل کرتی ہے تو ملک میںدستور کو تبدیل کردیا جائیگا ۔ اس کے اشارے بی جے پی کے کچھ قائدین کی جانب سے د ئے بھی گئے تھے ۔ کانگریس قائدین دستور کی نقولات اب بھی اپنے ساتھ رکھے ہوئے ہیں اور یہ کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے لوک سبھا کی رکنیت کا حلف بھی دستور پر لیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کو اپنی عوامی مقبولیت میں کمی کا احساس ہوا ہے اور وہ مرکز میں اپنے بل پر حکومت بھی نہیں بنائی ہے ۔ ایسے میں بی جے پی کانگریس کو نشانہ بنانے کیلئے ایمرجنسی کا سہارا لے رہی ہے ۔ اب 25 جون کو ‘‘ دستور ہتھیا دیوس ‘‘ دستور کے قتل کا دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ دونوں ہی نے ہی ایمرجنسی کے مسئلہ پر کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے اس کا اعلان کیا ہے ۔
سب سے پہلے تو جون کا مہینہ گذرے ایک ماہ کا وقت بھی نہیںہوا ہے ۔اگر واقعی اس کا اہتمام کیا جانا تھا تو جون میں ہی کیا جاتا ۔ تاہم بی جے پی کو دستور سے کوئی سروکار نہیں رہ گیا ہے ۔ وہ صرف کانگریس کو نشانہ بنانے کیلئے زبانی طور پر دستور سے ہمدردی دکھا رہے ہیں۔ دستور کا پاس و لحاظ رکھنا تھا تو پھر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی اہمیت کو گھٹانے سے قبل رکھنا چاہئے تھا ۔ گذشتہ پارلیمنٹ میں کئی قوانین کی منظوری دستوری روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کی گئی ہے ۔ کئی اہم بلز پر ایوان میں مباحث کی تک اجازت نہیں دی گئی تھی اور انہیں منظوری دیدی گئی ۔ آخری وقتوں میں لوک سبھا کے ایک سو کے قریب اپوزیشن ارکان کو معطل کرتے ہوئے کارروائی چلائی گئی ۔ یہ بھی دستوری روایات کے مغائر ہی اقدام تھا ۔ ملک میںاقلیتوں کو دستور میں جو مقام دیا گیا ہے اور جو حقوق دئے گئے ہیں ان کو گذشتہ دس برسوں میں مسلسل پامال کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی کیا جا رہا ہے ۔ اس وقت دستور کی پاسداری کا خیال نہیں آیا ۔ اقلیتی برادریوں کی عبادتگاہو ں کو نشانہ بنایا گیا انہیںنذر آتش کیا گیا اور توڑ پھوڑ کا شکار بنایا گیا اس وقت دستور میںفراہم کئے گئے حقوق کا بی جے پی کو خیال نہیں رہا ۔ اب اچانک ہی بی جے پی کو ایمرجنسی کی تکالیف کا احساس ہونے لگا ہے ۔ بی جے پی اپنے بل پر گذشتہ دو معیادوں میں برسر اقتدار رہی ہے اس کے باوجود ایمرجنسی کے تعلق سے پارٹی نے اب جو موقف اختیار کیا گیا ہے ماضی میں کبھی اس کا اظہار نہیں کیا گیا ۔
بی جے پی کو شائد یہ احساس ہوچلا ہے کہ کانگریس نے دستور کی حفاظت کیلئے جو نعرے دئے ہیں اور اس کی جس انداز سے تشہیر کی گئی ہے اس سے پارٹی کو لوک سبھا انتخابات میں نقصان ہوا ہے اسی وجہ سے اب بی جے پی دستور کا سہارا لینے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کیلئے ایمرجنسی کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ایمرجنسی یقینی طور پر آزاد ہندوستان کی تاریخ کا ایک غلط فیصلہ تھا تاہم اس کو گذرے بھی طویل عرصہ ہوچکا ہے اور بی جے پی مرکز میں پہلے بھی برسر اقتدار رہی ہے تو اس نے ایسے کسی یوم کا اعلان نہیںکیا تھا ۔ اب محض سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے دستور کا نام لیا جا رہا ہے ا ور ایمرجنسی کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔