اہم سیاسی جماعتوں میں تشویش، عوامی رجحان کا نتائج سے اظہار ہوگا
حیدرآباد: تلنگانہ میں گریجویٹ زمرہ کی دو کونسل نشستوں کے انتخابات پر تمام اہم سیاسی جماعتوں نے توجہ مرکوز کردی ہے ۔ اگرچہ دونوں حلقے سابقہ 6 اضلاع پر مشتمل ہیں لیکن اسمبلی حلقہ جات کے اعتبار سے نصف سے زائد حلقوں میں ایم ایل سی الیکشن کے لئے رائے دہی ہوگی۔ حکومت کی کارکردگی کے بارے میں سرکاری ملازمین ، ٹیچرس اور طلبہ و نوجوانوں میں ردعمل کے اظہار کا یہ بہترین موقع ہے۔ ٹی آر ایس اس الیکشن کو ملازمین اور طلبہ میں حکومت کے ریفرنڈم کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ مخلوعہ جائیدادوں پر تقررات اور ملازمین و طلبہ کی بھلائی کے اقدامات پر انتخاب لڑا جارہا ہے۔ تلنگانہ میں اسمبلی کی 119 نشستیں ہیں اور دونوں گریجویٹ حلقوں کے تحت 75 نشستیں آتی ہیں۔ حیدرآباد ، رنگا ریڈی اور محبوب نگر حلقہ میں 41 جبکہ ورنگل ، کھمم اور نلگنڈہ حلقہ میں 34 اسمبلی حلقے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو یقین ہے کہ گریجویٹ نشستوں کے انتخابی نتائج کا اثر اسمبلی کے عام انتخابات پر پڑسکتا ہے۔ مذکورہ 6 سابقہ اضلاع میں اگر ٹی آر ایس کی کارکردگی کمزور رہی تو اسمبلی انتخابات میں برسر اقتدار پارٹی کے امکانات متاثر ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی اور کانگریس میں انتخابات کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اپنی طاقت جھونک دی ہے ۔ حیدرآباد نشست پر بی جے پی دوبارہ قبضہ کرنی چاہتی ہے جبکہ نلگنڈہ ، کریم نگر اور ورنگل نشست پر ٹی آر ایس کے موجودہ ایم ایل سی پی راجیشور ریڈی کا موقف مستحکم بتایا جاتا ہے۔ گریجویٹ ایم ایل سی نشستوں کے بعد ناگرجنا ساگر اسمبلی حلقہ کا ضمنی چناؤ ہوگا۔ ناگرجنا ساگر میں ٹی آر ایس رکن اسمبلی این نرسمہیا کے دیہانت کے سبب ضمنی چناؤ ہوگا۔ ٹی آر ایس اور بی جے پی نے دونوں کونسل کی نشستوں کی مہم میں قومی قائدین کو مدعو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ گریجویٹ ایم ایل سی نشستوں کے نتائج کا ناگرجنا ساگر ضمنی چناؤ کے علاوہ مجالس مقامی کے انتخابات پر اثر پڑے گا۔ نتائج 6 سابق اضلاع کے 75 اسمبلی حلقہ جات میں سیاسی جماعتوں کے موقف کو واضح کریں گے۔