ایم ایم ٹی ایس حادثہ

   

زندگی کا وہ مزہ لیتے ہیں
زخم ہر روز لگالیتے ہیں
ایم ایم ٹی ایس حادثہ
ریلوے سیفٹی میں ساؤتھ سنٹرل ریلوے کی خدمات اور انتظامات کی ستائش کی جاتی ہے لیکن پیر کی صبح ایم ایم ٹی ایس اور ایک اکسپریس ٹرین کا کاچیگوڑہ ریلوے اسٹیشن کے قریب تصادم اور20 مسافروں کے زخمی ہونے کے بعد سیفٹی اور انسانی لاپرواہی کی وجہ سے رونما ہونے والا یہ حادثہ بڑا ہوجانے سے بچ گیا کیونکہ اسٹیشن کے قریب دونوں ٹرینوں کی رفتار دھیمی تھی۔ ریلوے کی سیفٹی کے لئے گزشتہ 150 سال سے ایک منظم طریقہ سے چوکسی برتی جاتی رہی ہے ، اس کے باوجود حادثات رونما ہوتے ہیں۔ہر حادثہ کے بعد مستقبل میں اس کا اعادہ نہ ہونے کے لئے مزید احتیاطی اقدامات کئے جاتے ہیں۔ 1913 سے ریل حادثوں کی درجہ بندی یا زمرہ بندی کی گئی تاکہ حادثہ کی وجوہات اور خاطی کا پتہ چلانے میں مدد مل سکے۔ اس بات کی تجویز رکھی گئی تھی کہ حادثات کی درجہ بندی کی جائے جس کے بعد آپس میں تصادم یاپیچھے سے ٹکر دینا ، یا پٹریوں سے اُتر جانا اور ڈرائیور کی غلطی سے حادثہ اور سگنل مین کی غلطی کے سبب اور فنی خرابی سے حادثہ کی زمرہ بندی کرکے اس طرح کے حادثوں سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جانے لگا۔ اس کے باوجود ملک بھر میں ٹرین حادثوں کی سالانہ تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اگرچیکہ ریلوے حکام نے کوچس کی تیاری اور حادثات کو روکنے کے لئے حد درجہ عصری ٹکنالوجی کا استعمال کرنا شروع کیا ہے، لیکن انسانی غلطیوں کو روکنے کے لئے کوئی ٹکنالوجی نہیں ہے ۔ فلک نما کی ایم ایم ٹی ایس اور کرنول تا سکندرآباد آنے والی ہنڈری اکسپریس کا تصادم سگنل کی ناکامی کی وجہ بتایا جارہا ہے۔ ریلوے ٹریک پر ایک مقام ایسا بھی ہوتا ہے جہاں سے ٹرین کو ایک ٹریک سے دوسری ٹریک پر ڈال دیا جاتا ہے ، اس تبدیلی میں غلطی یا تاخیر کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔ کرنول ۔ سکندرآباد ہنڈری اکسپریس کرنول سے صبح 6:45 کو روانہ ہوئی تھی اور وہ کاچیگوڑہ کے راستے سکندرآباد پہونچنے والی تھی لیکن اسٹیشن کے باہر کچھ دیر سگنل کا انتظار کرنے کے بعد وہ نکل پڑی اور ایم ایم ٹی ایس سے ٹکراگئی۔ حادثہ کے وقت دونوں ٹرینوں کی رفتار کم ہونے سے انسانی جانوں کا نقصان نہیں ہوا۔ ٹرین سرویس اب ہر شہری کیلئے اہم ٹرانسپورٹ ذریعہ بن گئی ہے۔ ٹرینوں کی سیفٹی اور حادثات سے پاک سرویس فراہم کرنے کے لئے عصری ٹکنالوجی کے استعمال کو صدفیصد یقینی بنانے کی ضرورت ہے اس میں شک نہیں کہ ایم ایم ٹی ایس کے کوچس کو عصری ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ تصادم کی صورت میں ایم ایم ٹی ایس ٹرین پٹریوں سے نیچے نہیں اُترتی ، اس کی خاص وجہ یہی ہے کہ اس ٹرین کے کوچس کو خاص نگرانی میں تیار کیا گیا ہے ۔ حادثہ کی صورت میں کوچس ایک دوسرے پرچڑھ نہیں جاتے۔ ایک کوچ کو دوسرے کوچ سے جوڑنے کیلئے خاص ٹیکنک استعمال کی جاتی ہے تاکہ حادثوں کے وقت یہ ایک دوسرے سے متصادم نہ ہوں اور نہ ہی یہ پٹری سے اُچھل کر دور جاگریں ۔ ایم ایم ٹی ایس سرویس دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کے مسافروں کے لئے ایک اہم سرویس بن گئی ہے ۔اس کی زیادہ سے زیادہ سیفٹی کی جانب توجہ دینی ہوگی۔ٹرین کیلئے الگ ٹریک نہ ہونے سے بھی اس سرویس کو کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سگنلس کی بروقت نگرانی اور ٹریکس پر ٹرینوں کی آمد ورفت کی نگرانی بھی اہم ہے۔ شہر حیدرآباد میںٹرین مسافرین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے خاص کر طلبہ ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال کے بعد سے ایم ایم ٹی ایس اور حیدرآباد میٹرو سرویس ہی مسافروں کے لئے متبادل سہولت ثابت ہورہی ہے۔ ایسے میں مسافروں کی سلامتی اور ریلوے کی سیفٹی کا خاص خیال رکھنا متعلقہ حکام کی ذمہ داری ہے۔ میٹرو ٹروین کی سرویس کو پہلے سے زیادہ مؤثر بنانے اور ایم ایم ٹی ایس کے لئے علیحدہ ٹریکس بچھانے جیسی تجاویز تو پیش کی جاتی رہی ہیں لیکن ریلوے کے پاس ان تجاویز پر غور کرنے کا یا تووقت نہیں ہے یا پھر بجٹ کا تقاضہ پیدا ہورہا ہے۔ لیکن ریلوے مسافروں کی قیمتی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے بجائے ریلوے کو حادثات سے بچنے کیلئے اقدامات کرتے ہوئے ٹریکس کی تعداد میں اضافہ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔