این آر سی کا خطرہ

   

عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا
این آر سی کا خطرہ
ہندوستانی شہرت کی جانچ کے نام پر این آر سی کی تلوار لے کر وارد ہونے والی پالیسی ایک خطرناک مستقبل کی تصویر پیش کررہی ہے۔ مرکز میں نریندر مودی زیرقیادت این ڈی اے حکومت آسام کے بعد پورے ملک میں نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزن (این آر سی) لانا چاہتی ہے۔ اس این آر سی کی آڑ میں تعصب پسند بیورو کریسی، مفاد حاصلہ طاقتیں مسلمانوں کو نشانہ بنائیں گے۔ ایک ایسی تشویشناک پالیسی کا پروپگنڈہ کیا جارہا ہے کہ ہندوستانی مسلمان خوفزدہ ہوجائیں۔ آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن شپ کی پہلی فہرست اس سال 31 جولائی تک منظرعام پر لانے کی توقع ہے اور آئندہ دو سال کے دوران ملک بھر میں این آر سی پر عمل کرنے کی تیاریاں مکمل کرلی جائیں گی۔ آسام کے این آر سی نے حب الوطن مسلمانوں کو مشکوک بنادیا۔ ملک کی فوج میں خدمت انجام دینے والے سابق سپاہیوں کو بھی فارینرس میں شمار کیا گیا۔ یہ واقعہ تشویشناک اور افسوسناک ہیکہ کارگل جنگ میں حصہ لینے والے اور فوج میں 1987ء سے 2017ء تک یعنی 30 سال سپاہی کی طرح خدمت انجام دینے والے فوجی آفیسر محمد ثناء اللہ کو ’’فارینر‘‘ (خارجی) قرار دیا گیا اور آسام کے ایک حراستی مرکز میں قید کرایا گیا۔ ایک ٹریبونل کی جانب سے ثناء اللہ کو فارنر قرار دینے کے معاملہ کو گوہاٹی ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا تو ہائیکورٹ نے انہیں عبوری ضمانت پر رہائی کا حکم دیا۔ ثناء اللہ کے خاندان والوں نے ایک درخواست داخل کی تھی جس پر جسٹس منجوت بھیون اور جسٹس پرشانت تمارڈیکا پر مشتمل بنچ نے ان کے کیس کی سماعت کی اور ٹریبونل کے فیصلہ کو رد کرتے ہوئے ثناء اللہ کی فوری رہائی کا حکم جاری کیا۔ آسام کے ضلع گولپاڑہ کے ایک حراستی کیمپ میں انہیں محروس رکھا گیا تھا۔ عدالت نے مرکزی حکومت، ریاستی حکومت، ریاستی رابطہ کار برائے نیشنل رجسٹر آف سٹیزن اور دیگر کو نوٹس بھی جاری کی ہے۔ سوال یہ ہیکہ ثناء اللہ کے پاس ہندوستانی شہری ہونے کے تمام سرکاری دستاویزات موجود ہونے کے باوجود ٹریبونل نے انہیں خارجی قرار دیا اور مفادحاصلہ طاقتوں نے ایسی بہانے تراش کر انہیں فارنر بتانے کی گہری چال چلی ایسی چالیں اگر ہر ہندوستانی مسلم کے خلاف چل گئیں تو پھر کروڑہا مسلمان بے یار و مددگار ہوجائیں گے۔ وہ کسی بھی ملک کے شہری نہیں کہلائیں گے۔ ثناء اللہ کے پاس اسکول کا سرٹیفکیٹ، پاسپورٹ اور فوج سے سبکدوشی کے کاغذات موجود ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہیکہ وہ پیدائشی طور پر ہندوستانی ہیں لیکن ایک منظم سازش کے ذریعہ ٹریبونل نے انہیں فارنر کی فہرست میں شامل کردیا۔ اس کیلئے ایسے 3 گواہ بھی تیار کرلئے ہیں جن کی گواہی کو بھی فرضی یا جعلسازی کے ذریعہ تیار کیا گیا۔ ثناء اللہ کو خارجی قرار دینے کیلئے تحقیقاتی آفیسر چندر مل داس نے جن 3 مسلمانوں کے نام استعمال کئے تھے ان میں امجد علی احمد، فرآن علی اور سبحان علی شامل ہیں لیکن ان تینوں نے ثناء اللہ کو خارجی قرار دینے کیلئے گواہ بن جانے کی بات کو مسترد کردیا اور تحقیقاتی آفیسر چندرمل داس کے خلاف تینوں نے 3 علحدہ کیس درج کروائے۔ ثناء اللہ کے کیس سے یہ اشارہ ملتا ہیکہ ہندوستانی مسلمانوں کو ان کی شہریت کے مسئلہ کے ذریعہ پریشان کیا جائے گا۔ ایک فوجی آفیسر کے ساتھ آسام ٹریبونل مبینہ طور پر یہ گھناونی سازش کرسکتا ہے تو پھر اس طرح کا تجربہ سارے ملک میں آزمایا جائے گا۔ لہٰذا مسلمانوں کو اپنے ہندوستانی ہونے کا ثبوت دینے کیلئے ہر لحاظ سے تیار رہنا چاہئے۔ ہندوستانی ہونے کا ثبوت دینے کیلئے تمام سرکاری دستاویزات کو حاصل کرلینا چاہئے لیکن جب مفاد حاصلہ ٹولہ سازشی طور پر سرگرم ہوتا ہے تو اس ٹولے کو استعمال کرتے ہوئے این آر سی ٹریبونل کسی کو بھی خارجی قرار دے سکتا ہے یہ ایک ایسی سنگین صورتحال ہے جس سے بچنے کیلئے ہر ممکنہ کوشش کرنا ضروری ہے۔ حقیقی ہندوستانی شہریوں اور خارجیوں کا فرق پیدا کرکے بی جے پی حکومت اپنے خفیہ منصوبوں کو روبہ عمل لانے کی کوشش کررہی ہے لیکن ہندوستانی مسلمان اس سازش کا مضبوطی سے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھیں تو مفاد حاصلہ طاقتوں کی سازشیں ناکام ہوں گی۔ حقیقی ہندوستانی مسلم شہریوں کو ہراساں کرنے کے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
عمران خاں ، ہند ۔ پاک مذاکرات کے خواہاں
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کی خواہش ظاہر کرکے پڑوسی ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے احیاء کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے انہوں نے مذکرات کیلئے زور دیا ہے تو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمسایہ ملکوں کے درمیان زیادہ مدت تک کشیدگی کو برقرار رکھنا بھی مناسب نہیں ہے۔ عمران خان نے ایک ایسے وقت بات چیت کی پیشکش کی ہے جب وزیراعظم نریندر مودی شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن چوٹی کانفرنس میں شرکت کیلئے کرغزستان روانہ ہوں گے۔ اس چوٹی کانفرنس کے موقع پر دونوں ہند۔پاک وزرائے اعظم کی ملاقات کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے ذرائع اگر شنگھائی کانفرنس کے دوران ملنے والے ملاقات کے موقع کو ضائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بڑی بدبختی ہوگی۔ اس وقت دونوں ملکوں کو اچھے ہمسایہ ممالک کی طرح رہنے کی ضرورت ہے۔ برصغیر میں ایک مستحکم فضاء قائم کرنے کیلئے دونوں ملکوں کی جانب سے کوشش ہونی چاہئے۔ مذاکرات ہی تمام مسائل کو حل کرنے کا واحد ذریعہ ہیں۔ عمران خاں کے مکتوب پر وزارت خارجہ ہند کے دفتر سے فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا لیکن دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کو باہمی مذاکرات اور باہمی مفادات کے تحفظ کیلئے ایک دوسرے سے قریب آنے کی ضرورت ہے۔ اس سے دونوں ملکوں کے عوام کو اندیشے کے تحت زندگی گذارنے کی فکر سے آزاد ہونے میں مدد ملے گی۔