این آر سی کا کام این پی آر کے ذریعہ کیا جا رہا ہے ‘آزاد

   

سیاہ قوانین صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ‘ دلت و پسماندہ طبقات بھی نشانہ : بھیم آرمی سربراہ
حیدرآباد۔27 جنوری(سیاست نیوز) سی اے ا ے نہیں این پی آر پر کام کیا جائے ۔این آر سی نہیں آئے گا کیونکہ این آر سی کا کام این پی آر کے ذریعہ مکمل کیا جا رہاہے۔ بھیم آرمی سربراہ چندر شیکھر آزاد نے نمائندہ سیاست سے دوران حراست گفتگو کے دوران یہ بات کہی اور کہا کہ این پی آر کو روکنا لازمی ہے اسی لئے اس جدوجہد میں شدت پیدا ضرورت ہے۔ انہو ںنے بتایا کہ سی اے اے ایک قانون ہے اس کے خلاف احتجاج کو جرم قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن این پی آر کو روکنا بلکہ اس میں حصہ نہ لینا کوئی جرم نہیں ہے ۔ انہو ںنے تلنگانہ میں این پی آر کے سلسلہ میں تیاریوں کی اطلاعات پر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر شمار کنندگان کو یہ ذمہ داری تفویض کی جاتی اور شمارکنندہ اس ذمہ داری کو قبول نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تب بھی اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاسکتی کیونکہ شمارکنندہ خواہ وہ کسی بھی محکمہ سے تعلق رکھتا ہواسے اس بات کا حق ہے کہ وہ این پی آر کی ذمہ داری قبول کرے یا نہ کرے ۔چندر شیکھر آزاد نے کہا کہ ضلع انتظامیہ کی جانب سے این پی آر کے امور کی نگرانی کی جاتی ہے اور ضلعی سطح پر پر اگر شمار کنندگان یہ ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں تو ضلع کلکٹر بھی ان سے وجہ دریافت نہیں کرسکتا اور یہ ایک بہترین طریقہ این پی آر کے بائیکاٹ کا ہے۔انہو ں نے بتایا کہ اگر حکومت سے این پی آر کیلئے تفصیلات جمع کرنے کا عمل شروع کیا جاتا ہے تو عوام کو اس کا بائیکاٹ کرنا چاہئے کیونکہ یہی این آر سی ہے اور اسی کے ذریعہ سی اے اے پر عمل آوری ہوگی۔چندر شیکھر آزاد نے کہا کہ این پی آر اور این آر سی میں کوئی فرق نہیں ہے اسی لئے حکومت کی جانب سے عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے۔انہو ںنے بتایا کہ این آر سی ‘ این پی آر اور سی اے اے صرف مخالف مسلم فیصلے نہیں ہیں بلکہ ان کے ذریعہ ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندستان میں مقیم پسماندہ ‘ دلت اور پچھڑے طبقات کو ان فیصلوں کے ذریعہ نشانہ بنایا جا رہاہے اور اب ہر ہندستانی اس بات کو سمجھنے لگا ہے‘ اسی لئے ملک کے ہر شہر میں ان کے خلاف احتجاج کیا جا رہاہے۔ آزاد نے سرکاری ملازمین کو مشورہ دیا کہ وہ این پی آر کی خدمات انجام دینے سے انکار کریں ان کے فیصلہ سے کوئی نقصان نہیں ہوگا اور نہ ان کی ملازمت پر کوئی فرق پڑیگا اسی لئے سرکاری ملازمین کو چاہئے کہ وہ اس پر انکار سے اپنا احتجاج درج کروائیں تاکہ حکومت کو اندازہ ہوجائے کہ سرکاری ملازمین بھی حکومت کے فیصلہ کے خلاف ہیں۔انہو ںنے کہا کہ حقوق کی جدوجہد میں اگر پیچھے رہ جائیں گے تومستقبل میں پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے گا اسی لئے اب فسطائی طاقتو ں سے متحدہ مقابلہ کرکے فرقہ واریت کے خاتمہ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔انہو ںنے حیدرآباد پولیس کی کاروائی کو انسانی حقوق کی پامالی کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ دستوری حقوق کو عوام سے چھیننے کی کوشش حکومت اور پولیس کیلئے مہنگی ثابت ہوگی ۔