این آر سی کی تلوار

   

چراغ جلتے ہیں بینائی بجھنے لگتی ہے
خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشان نہیں ملتا
این آر سی کی تلوار
مرکز کی نریندرمودی حکومت سارے ملک میںاین آر سی کے نفاذ کیلئے سرگرم ہوگئی ہے ۔ یہ تاثر بھی شائد درست ہی ہو کہ اس کیلئے اپنے طور پر حکومت کی جانب سے تیاریوں کا بھی آغاز کردیا گیا ہو اور ان تیاریوں کا وقت آنے پر اعلان کیا جائیگا ۔ حکومت کے تعلق سے کہا جاسکتا ہے کہ اس تعلق سے اس کے منصوبے پوری طرح واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ کے باہر کئی بار کہا ہے کہ بیرونی ممالک میں مذہبی اساس پر جن لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہو انہیں پہلے ہندوستان کی شہریت دی جائے گی اس کے بعد ملک میں این آر سی نافذ کیا جائیگا ۔ اس طرح راست یا بالواسطہ طور پر امیت شاہ کئی بار واضح کرچکے ہیں کہ سوائے مسلمانوں کے ہر کسی کو شہریت دی جائیگی ۔ امیت شاہ کے بیانات سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس ملک میں این آر سی کی تلوار صرف مسلمانوں کے سروں پر لہرائی جا رہی ہے ۔ اس تلوار کے زور سے مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کیا جا رہا ہے اور انہیںنشانہ بنانے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ہے کہ بی جے پی حکومت مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے منصوبہ سازی کر رہی ہو۔ تقریبا ہر کام کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنانا نریندرمودی حکومت کا وطیرہ بن چکا ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ جو جماعتیں این ڈی اے کا حصہ ہیں وہ بھی حالانکہ انفرادی طور پر تو مسلمانوں کی بھلائی کے دعوے کرتی ہیں اور سکیولرازم پر یقین ظاہر کرتی ہیں لیکن وہ بھی بی جے پی کے ان منصوبوں کی تکمیل میں خاموشی سے انکا ساتھ دے رہی ہیں۔ ٹی آر ایس جیسی جماعتیں بھی ہیں جو این ڈی اے کا حصہ نہیں ہیں لیکن ہر متنازعہ فیصلے میں وہ بھی نریندر مودی حکومت کا ساتھ دے رہی ہیں۔ تاہم اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا کچھ جماعتیں اپنی اپنی ریاستوں میں سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے کیا این آر سی کے خلاف موقف اختیار کرینگی ؟ ۔ کیا ان جماعتوں میں اتنی سیاسی اور اخلاقی جراء ت پیدا ہوگی کہ وہ این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کرنے کو ترجیح دیں ۔ حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بی جے پی کو حکومت چلانے کیلئے کسی بھی جماعت کی تائید کی ضرورت نہیں ہے ۔
بی جے پی کی جو عددی طاقت لوک سبھا میں ہے اسے حکومت چلانے کیلئے کسی اور جماعت کی تائید کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے ۔ تاہم قوانین کی منظوری کیلئے راجیہ سبھا میں اسے تائید اور توڑ جوڑ کی ضرورت پیش آ رہی ہے ۔ بی جے پی اسی لئے ان جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کا ڈھونگ کر رہی ہے ۔ تاہم شیوسینا نے مہاراشٹرا میںاپنے سیاسی مطالبہ کے تحت جو موقف اختیار کیا ہے شائد اس کے نتیجہ میں کچھ جماعتوں میں یہ سوچ ضرور پیدا ہوئی ہے کہ انہیں بھی اپنی سیاسی بقاء کیلئے جدوجہد کرنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے بصورت دیگر بی جے پی انہیں اپنے مفادات کیلئے کسی بھی موڑ پر قربان کرنے سے گریز نہیں کرسکتی ۔ اسی طرح ٹی آر ایس کا بھی کہنا رہا ہے کہ وہ تلنگانہ میں این آر سی کے نفاذ کی اجازت نہیں دیگی ۔ تاہم ہر متنازعہ مسئلہ پر جس طرح ٹی آر ایس نے این ڈی اے اور مودی حکومت کی تائید کی ہے اس کے پیش نظر ٹی آر ایس کے تعلق سے کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔ تاہم اطلاعات مل رہی ہیں کہ بہار میں نتیش کمار بھی این آر سی کی مخالفت کرسکتے ہیں۔ نتیش کمار پہلے بھی بی جے پی سے قطع تعلق کرچکے ہیں اور وہ بی جے پی کی دوستی بھی محض اپنے اقتدار کیلئے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ابھی دوسری جو جماعتیں ہیں ان کے تعلق سے قطعیت سے کہا نہیں جاسکتا کہ این آر سی کے تعلق سے ان جماعتوں کا موقف کیا ہوگا اور وہ کیا رخ اختیار کرینگی ۔
این ڈی اے میں شامل جماعتوں کو اپنے مستقبل کو ذہن میں رکھتے ہوئے این آر سی کے مسئلہ پر ایک جامع اور موثر موقف کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں اس بات کو فراموش نہیںکرنا چاہئے کہ موجودہ نریندر مودی حکومت کو این ڈی اے حکومت کے طور پر نہیں بلکہ بی جے پی حکومت کے طرز پر چلایا جا رہا ہے اور بی جے پی و سنگھ پریوار کے ایجنڈہ ہی پر عمل کیا جا رہا ہے ۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے این ڈی اے میں شامل جماعتوںکو اپنا موقف طئے کرنا ہوگا ۔ انہیں یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ سنگھ پریوار کے ایجنڈہ میں نہ مسلمانوں کا کوئی حصہ ہے اور نہ دلتوں کا کوئی مقام ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو اگر اپنا مستقبل عزیز ہے تو انہیں یہ صورتحال ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے اور این آر سی کے نام پر ملک میں پیدا ہونے والے امکانی نراج کو روکنا بھی ان کی ذمہ داری ہے ۔