این آر سی کے تجربہ کیلئے حیدرآباد نشانہ ۔ آدھار کارڈ اتھارٹی کا استعمال

,

   

۔127 افراد کو نوٹسوں سے این پی آر و سی اے اے کی بجائے راست این آر سی پر عمل کے شبہات ۔ عوامی رد عمل و قانونی اقدامات کا جائزہ لیا جائیگا

حیدرآباد /18 فبروری (سیاست نیوز) وزیراعظم نریندر مودی کے واراناسی میں دو دن قبل دیئے گئے بیان میں یہ واضح کہا گیا تھا کہ سی اے اے کے مسئلہ پر حکومت اپنے موقف پر اٹل ہے اور ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے گی ۔ اس بیان کے پس منظر میں اب ایسا لگتا ہے کہ ملک بھر میں شہریت ترمیمی قانون ، این پی آر اور این آر سی کے خلاف شدید احتجاج کے دوران اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے مرکزی حکومت نے ایک ایسی چال چلی ہے جس کے ذریعہ آسانی سے اپنا مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ بی جے پی حکومت نے تلنگانہ میں این پی آر اور سی اے اے کے بجائے راست طور پر این آر سی کروانے UIDAI کا استعمال کرنا شروع کردیا ہے جس کے تحت حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے 127 افراد جس میں پرانے شہر سے تعلق رکھنے والے تین مسلم افراد بھی شامل ہے کو اپنی شہریت ثابت کرنے نوٹسیں جاری کردی گئی ہیں ۔ ستار خان ، محمد ذاکر اور اسماعیل خان کو آدھار کارڈ تیار کرنے والے حکام نے نوٹسیں جاری کرتے ہوئے /20 فبروری کو انکوائری آفیسر کے روبرو پیش ہونے کی ہدایت دی گئی ہے ۔واضح رہے کہ سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی کے خلاف شاہین باغ ، جامعہ ملیہ جیسے شدید احتجاج کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور حکومت کو اُس وقت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جب کیرالا ، راجستھان ، مغربی بنگال اور اب تلنگانہ میں بھی سی اے اے کے خلاف اسمبلی میں قرارداد منظور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مرکزی حکومت کو این آر سی لاگو کرنے کیلئے فی الفور راہ ہموار نظر نہیں آرہی ہے جس کے نتیجہ میں UIDAI ایک ایسا ہتھیار ہاتھ لگا ہے جس کے ذریعہ کسی بھی شہری کو آسانی سے اس کی شہریت کے بارے میں سوال کیا جاسکتا ہے اور اسے یہ پابند کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے ہندوستانی ہونے کا ثبوت دیں اور اصلی دستاویزات انکوائری آفیسر کے سامنے پیش کریں ۔ UIDAI کی جانب سے بلاخوف شہریان کو ان کی شہریت ثابت کرنے کیلئے نوٹس جاری کرنے کے پس پردہ راست طور پر مرکزی حکومت کی پشت پناہی صاف دکھائی دے رہی ہے اور اس سلسلے میں نئی دہلی سے بھی اس بات کی توثیق کردی گئی ہے ۔کیونکہ آدھار کارڈ کیلئے تفصیلات کے اندراج اور اجرائی مرکزی حکومت کے اختیار میں ہے اور ریاستی حکومت صرف مواد فراہم کرنے تک ہی اپنا رول ادا کرتی ہے ۔ تلنگانہ بالخصوص حیدرآباد میں آدھار کارڈ کے ذمہ داران کی جانب سے نوٹس کی اجرائی سے یہ سمجھا جارہا ہے کہ مرکزی حکومت ریاست تلنگانہ میں یہ تجربہ کرنا چاہتی ہے اور عوام بالخصوص مسلمانوں کے ردعمل اور قانونی حل تلاش کرنے کے اقدام کو غور کرنا چاہتی ہے ۔ سمجھا جاتا ہے کہ اگر تلنگانہ میں عوام UIDAI کی جانب سے جاری کی گئی نوٹسیس کے خلاف قانونی حل تلاش کرنے میں ناکام ہونے پر اس اقدام پر ملک بھر میں این آر سی پر عمل آوری کرنے میں راہ ہموار کردے گا اور ملک کی تمام ریاستوں میں UIDAI کی آڑ میں شہریان بالخصوص مسلمانوں کی شہریت پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے ان کے آدھار کارڈ فوری طور پر منسوخ کردیئے جانے کا خدشہ ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت نے تلنگانہ کو تجربہ کیلئے کیوں چنا اور کیا حیدرآباد کی عوام کا ردعمل اہمیت کا حامل ہے۔