این سی آر ٹی کتابوں سے مسلم تاریخ کا اخراج، بی جے پی حکومت کا دوہرا معیار

   

زعفرانی نظریہ مسلط کرنے کی مہم میں کتابوں سے تاریخ غائب، عمارتوں سے آمدنی جاری

نئی دہلی۔ 23 ۔ جولائی (ایجنسیز) ہندوستان میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سنگھ پریوار اور آر ایس ایس نے اپنی مخصوص آئیڈیالوجی کو دوسروں پر تھوپنے کا عمل تیزی سے جاری رکھا ہوا ہے۔ اقلیتوں، خاص کر مسلم سماج سے نفرت اور ان کے تئیں غلط فہمیوں کو پروان چڑھانا اس آئیڈیالوجی کا ایک اہم جز ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی این سی آر ٹی کی درسی کتابوں سے اس شاندار تاریخ کو مٹانے کی کوشش ہے جسے پڑھ کر ہم بڑے ہوئے ہیں۔مرکزی حکومت کی جانب سے اقلیتوں کو ملنے والی کئی اسکیموں کو بند کر دیا گیا، جس کی تازہ مثال مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ ہے۔ اس اسکیم کے تحت مسلم طلبہ کو پی ایچ ڈی کے دوران ہر مہینہ بیس ہزار روپے سے زائد کی اسکالر شپ دی جاتی تھی، مگر اب اسے بند کر دیا گیا ہے۔ تعلیمی شعبے میں یہ عمل کافی سوچ سمجھ کر کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان کی دیگر ریاستوں پر ہندی زبان کا لزوم بھی اسی سلسلے کا حصہ ہے۔اب کتابوں سے ان ابواب کو ہٹایا جا رہا ہے جو مسلم حکمرانوں کی شاندار حکمرانی کی ترجمانی کرتے تھے۔ تاریخ میں یہ سچائی بتائی گئی تھی کہ کس طرح شیر شاہ سوری نے پہلی بار ہائی وے (جی ٹی روڈ) کی تعمیر کی۔ اس بات کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کس طرح مغلوں نے ہندوستان میں زراعت کا ایک منظم نظام قائم کیا تھا۔تاریخ کی اس سچائی کو بھی اب کتابوں سے ہٹایا جا رہا ہے کہ ہندوستان نے کوہِ نور ہیرا دریافت کیا تھا۔طلبہ اب یہ نہیں سمجھ سکیں گے کہ ٹیپو سلطان نے آخری سانس تک انگریزوں کے سامنے ہتھیار کیوں نہیں ڈالے، اور ضعیف بہادر شاہ ظفر آخری وقت تک انگریزوں کے سامنے کیوں نہیں جھکے۔یہ واضح کرنے والے اسباق ہٹائے جا رہے ہیں کہ کس طرح مسلم دورِ حکومت میں ہندوستان کی جی ڈی پی آسمان چھو رہی تھی۔ایسی ہزاروں تاریخی سچائیاں ہیں جنہیں سنگھ پریوار اور بی جے پی دفن کر دینا چاہتی ہے، اور یہ عمل شروع بھی ہو چکا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتابوں سے تاریخی حقائق، خاص کر مسلم فتوحات اور کامرانیوں کو ختم کر کے کیا بی جے پی اور سنگھ پریوار اپنے منصوبوں میں کامیاب ہو جائیں گے؟ کتابوں سے ان حقائق کو مٹانا شاید ان کے لیے آسان ہو، مگر ان ثبوتوں کا کیا کیا جائے گا جو سینکڑوں سالوں سے ہمارے سامنے کھڑے ہیں؟لال قلعہ، تاج محل، بلند دروازہ، جامع مسجد دہلی، فتح پور سیکری، جودھا بائی پیلس، اور چار مینار جیسی ہزاروں بلند و بالا عمارتیں ہندوستان کے ہر ضلع اور ہر شہر میں مسلم فتوحات اور حکمرانی کی دلیل ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت خود ان تاریخی عمارتوں کی حفاظت کرتی ہے کیونکہ ان کے ذریعے حکومت کو آمدنی کا ایک بہترین ذریعہ حاصل ہے۔ اگر بی جے پی کی آئیڈیالوجی مسلم تعمیرات اور حکمرانی کو برداشت نہیں کرتی، تو انہیں ان کے دور میں بنائی گئی تعمیرات سے ہونے والی آمدنی کو بھی قبول نہیں کرنا چاہیے۔ مگر معاملہ اس کے برعکس ہے۔یوپی کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کو مسلمانوں سے اس قدر الرجی ہے کہ وزیرِ اعلیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی انہوں نے 12 ربیع الاول کی عام تعطیل ختم کر دی، مگر تاج محل سے ہونے والی آمدنی انہیں بہت پسند ہے، یہاں تک کہ تاج محل کے ٹکٹ کی قیمت میں مزید اضافہ کیا گیا۔بی جے پی اور آر ایس ایس یہ سمجھتے ہیں کہ کتابوں اور رسائل میں مسلم تعمیرات، حکمرانی یا ان کی فتوحات کے ذکر سے ان کی زعفرانی آئیڈیالوجی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پوری مشنری اس بات پر زور دے رہی ہے کہ درسی کتابوں سے مسلم حکمرانی کی شان و شوکت کو ختم کر دیا جائے۔اس کا اصل مقصد الیکشن سے قبل ووٹ بینک کے سستے حربے استعمال کرنا ہے اور اپنے نام نہاد “گودی میڈیا’’ کے ذریعے اس کی خوب تشہیر کرنا ہے تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ حکومت ہندوتوا کے لیے کیا کچھ کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ، اس کا ایک اور بنیادی مقصد تنازعات کھڑے کر کے عوامی ذہن کو مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر بنیادی مسائل سے منتشر کرنا ہے تاکہ حکومت سے کوئی سوال نہ کیا جا سکے۔ہندوستان کی تاریخ مسلم فتوحات اور شاندار حکمرانی کے بغیر نہ ممکن ہے اور نہ ہی مکمل، کیونکہ یہ تاریخ ہزار سال پر محیط ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اس تاریخ کو محض این سی آر ٹی اور درسی کتابوں سے خارج کر کے فراموش کیا جا سکتا ہے؟ ایسا کرنا تقریباً ناممکن ہے، کیونکہ ہندوستان کے کونے کونے میں مسلم حکمرانی کی شاندار نشانیاں آج بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ کھڑی ہیں۔