این سی پی ۔ کانگریس کا موقف

   

!عجیب چیز ہے خاکسترِ محبت بھی
ذرا کسی نے چُھوا اور آگ اُبھر آئی
این سی پی ۔ کانگریس کا موقف
مہاراشٹرا کی 288 رکنی اسمبلی میں کانگریس نے صرف 44 نشستیں جیت کر اب حکومت سازی میں شیوسینا کی باہر سے تائید کرنے پر غور کرتے ہوئے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارلے گی ۔ بی جے پی۔شیوسینا کا نظریاتی اتحاد جب اقتدار کے سامنے کمزور پڑجاتا ہے تو پھر دیگر پارٹیوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ باہر سے یا اندر سے شیوسینا حکومت کی تائید کرنے کا ارادہ کرتے ہوئے خود کو اور اپنے رائے دہندوں کے ساتھ دھوکہ کررہے ہیں ۔ مہاراشٹرا اسمبلی میں چوتھے مقام پر پہنچنے والی کانگریس کو بلا شبہ ریاست مہاراشٹرا میں غیر بی جے پی حکومت بنانے میں اہم رول ادا کرنے کا موقع مل رہا ہے ۔ مگر اسے یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ شیوسینا ۔ بی جے پی کا نظریاتی اتحاد دیرینہ ہونے کے باوجود اقتدار میں دونوں پارٹیوں کو اپنے مفادات عزیز ہیں ۔ شیوسینانے جب اقتدار کے لیے اپنی قدیم حلیف پارٹی بی جے پی کو ٹھکرادیا ہے تو اس کی حمایت کرنے والی پارٹیوں کو یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ آگے چل کر وہ اپنے رائے دہندوں کے سامنے کیا موضوع پیش کریں گے ۔ تشکیل حکومت سے بی جے پی کے انکار کے بعد گورنر مہاراشٹرا کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ شیوسینا کو حلف دلائیں اور شیوسینا نے این سی پی کانگریس کی حمایت سے حکومت کا دعویٰ پیش کرے گی ۔ مہاراشٹرا کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں کسی بھی پارٹی کو قطعی اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔ بی جے پی واحد بڑی پارٹی بن کر 105 نشستیں حاصل کیں اور اس کی حلیف شیوسینا کو 56 نشستوں پر کامیابی ملی تھی ۔ این سی پی 54 نشستوں کے ساتھ حکومت سازی میں بادشاہ گر کا رول ادا کرنا چاہتی ہے ۔ ان پارٹیوں کا یہ اتحاد حیرت انگیز ہوگا ۔ عوام اس اتحاد کو کیا نام دیں گے یہ تو آنے والے دنوں میں ہی معلوم ہوگا ۔ فی الحال اس طرح کی حکومت سازی کی کوششوں کو عوام نے ریاست مہاراشٹرا کو لوٹ لینے کی کوشش قرار دیا ہے ۔ مہاراشٹرا کی عوام کو اس مرتبہ کئی مسائل کا شکار ہونا پڑے گا ۔ شیوسینا کے تعلق سے یہی کہا جارہا ہے کہ وہ ہندو نظریات کی آڑ میں غیر مراٹھا عوام کو ریاست مہاراشٹرا میں پسند نہیں کرتی اور دوسری طرف وہ اسکامس کے ذریعہ سرکاری خزانوں کو تباہ کردے گی ۔ مرکزی حکومت میں شامل شیوسینا کے واحد وزیر اروند ساونت نے مودی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔ مہاراشٹرا کے گورنر بھگت سنگھ کشوری نے شیوسینا کو اس کی مرضی ظاہر کرنے کا موقع دیا ہے کہ چند گھنٹوں میں شیوسینا اپنا دعویٰ پیش کر کے حکومت سنبھال لے گی ۔ اگر اس نے ایوان اسمبلی میں اکثریت ثابت نہیں کی تو ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کی راہ ہموار ہوگی ۔ دیویندر فڈنویس کے استعفیٰ کے ساتھ ہی مہاراشٹرا میں بی جے پی شیوسینا اتحاد ختم ہوگیا تھا اور یہاں صدر راج نافذ کرنے میں ہی سیاسی بحران ختم ہوگا ۔ مہاراشٹرا میں حکومت سازی کے لیے گذشتہ دو ہفتوں سے بی جے پی شیوسینا اتحاد کی کوششوں میں جب ناکامی ہوئی تو مہاراشٹرا اسمبلی کی میعاد بھی ختم ہوگئی اور اب صدر راج نافذ کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں رہے گا ۔ بی جے پی نے شیوسینا کے ساتھ اتنے سال تک اقتدار کی حصہ داری کو ادا کیا ۔ اس مرتبہ اگر اس نے فراخدلی سے کام لیا ہوتا تو شیوسینا کو اقتدار کی بڑی ذمہ داری دے کر خود کو پس پردہ سرگرمیوں سے وابستہ کرلیتی تو بحران کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی اور شیوسینا کو حکومت بنانے اور چیف منسٹر کا عہدہ حاصل کرنے کا موقع دیا جاتا اس طرح دونوں نظریاتی طور پر حلیف شیوسینا اور بی جے پی کی دوستی برقرار رہتی ۔ ففٹی ففٹی 50+50 فارمولہ میں کامیابی سے ایک ایسا استحکام حاصل ہوتا ۔ اب گورنر کو یا تو صدر راج کی سفارش کرنی پڑے گی یا شیوسینا کو حکومت سازی کا موقع دے کر اکثریت ثابت کرنے کی مہلت دینی ہوگی ۔ خط اعتماد کا ووٹ لینے کا وقت آنے تک کانگریس اور این سی پی نے اپنا ارادہ بدل لیا تو پھر شیوسینا کی مختصر مدتی حکومت بھی ریاست میں صدر راج کی شکل میں مرکز کی ہی حکومت ہوگی ۔ اس سارے کھیل میں سیکولر پارٹیاں کہی جانے والی این سی پی اور کانگریس کو اپنے رائے دہندوں کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا ۔۔