این پی آر اور این آر سی ایک ہی سکہ کے دو رخ : اسد اویسی

   

ریاست میں عمل نہ کرنے کے سی آر سے درخواست‘ سی اے اے سے متعلق فیصلے کا خیر مقدم

حیدرآباد۔17 فروری(سیاست نیوز) رکن پارلیمنٹ حیدرآباد و صدر مجلس اتحاد المسلمین بیرسٹر اسد الدین اویسی نے چیف منسٹر تلنگانہ چندر شیکھر راؤ سے درخواست کی کہ وہ تلنگانہ میں این پی آر اور این آر سی کے نفاذ نہ کرنے کا اعلان کریں ۔انہوںنے چیف منسٹر سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ کیرالا کی طرح تلنگانہ میں بھی این پی آر اور این آر سی کا نفاذ نہ کرنے کا اعلان کیا جائے کیونکہ این پی آر کا مردم شماری اور فلاحی اسکیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسد الدین اویسی نے کہا کہ این پی آر کا کروایا جانا مستقبل میںخالص این آر سی کے نفاذ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔انہو ںنے توقع ظاہر کی کہ چیف منسٹر ان کی گذارش کو قبول کریں گے۔انہوں نے شہریت ترمیم قانون کے خلاف کابینہ کے فیصلہ کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ وہ چیف منسٹر سے گذارش کرتے ہیں کہ وہ کیرالا کی طرح تلنگانہ میں بھی این پی آر پر روک لگائے کیونکہ مرکزی حکومت اس لئے این پی آر کررہی ہے تاکہ مستقبل میں این آر سی کیا جاسکے۔ اسدالدین اویسی نے کہا کہ ریاستی کابینہ نے شہریت ترمیم قانون کے خلاف قرارداد منظور کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور انہیں توقع ہے کہ جس طرح سی اے اے کے خلاف قرار داد کا فیصلہ کیا گیا اسی طرح این پی آر اور این آر سی پر روک لگانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے بتایا کہ جس وقت انہوں نے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ سے ملاقات کی تھی اس وقت یہ یہ خواہش کی تھی کہ سی اے اے کے ساتھ این پی آر اور این آر سی کے خلاف اقدام کیا جائے۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مردم شماری کے ہم خلاف نہیں ہیں اور این پی آر کا مردم شماری سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ این پی آر اور این آرسی کا تعلق ہے اور دونوں ایک سکے کے دو رخ ہیں اسی لئے ہم چیف منسٹر سے گذارش کررہے ہیں کہ وہ این پی آر اور این آر سی پر روک لگائیں۔انہو ںنے بتایا کہ سی اے اے کے خلاف جاری احتجاج عوامی تحریک ہے اور وزیر اعظم جو چاہیں کہیں جمہوریت میں عوام طاقتور ہوتے ہیں۔ انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران جامعہ ملیہ اسلامیہ معاملہ میں پولیس کے خلاف ایف آئی آراور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ لائبریری میں داخل نہ ہونے کے دعوے جھوٹے ثابت ہوچکے ہیں اور اب حکومت چاہئے کہ پولیس کے خلاف کاروائی کاآغاز کرے ۔