این پی آراورہمارا لائحہ عمل

   

مولانا سید احمد ومیض ندوی
(استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد)
سی اے اے اور این آرسی کے خلاف جب پورے ملک میں طوفان برپاہوگیا اور ہر طرف احتجاج ہونے لگا تو حکومت نے پینترا بدل دیا، ایک طرف یہ کہا جانے لگا کہ پارلیمنٹ میں این آرسی پر بات ہی نہیں چھڑی (جو کہ سراسر جھوٹ ہے) دوسری طرف چپکے سے کابینہ نے این پی آر کو منظوری دے دی، این پی آر کے نام کے ساتھ ملکی عوام کا ذہن اس مردم شماری کی جانب جاتا ہے جو مرکزی حکومتوں کی جانب سے ہر دس سال بعد کرائی جاتی ہے، کیا بی جے پی کا موجودہ این پی آر وہی عام مردم شماری ہے؟نہیں، بظاہر یہ ہر دس سال بعد ہونے والا مردم شماری ہی کا عمل نظر آتاہے لیکن اس کا طریقہ کار اور حکومتی عزائم مختلف ہیں، راتوں رات این پی آر کی منظوری خود بتارہی ہے کہ اس غیر معمولی عجلت کے پس پردہ کچھ کالا ضرورہے، چنانچہ وزیر داخلہ نے فوری طور پر صفائی دے دی کہ اس این پی آر کا این آرسی سے کوئی تعلق نہ سمجھا جائے، وزیر داخلہ کی یہ وضاحت ہی حکومتی بدنیتی کو آشکارا کرنے کے لیے کافی ہے، اس حوالہ سے وزیر داخلہ کی دروغ گوئی کا پردہ یوں بھی چاک ہوجاتا ہے کہ ۱۸؍ جون ۲۰۱۴ء کو اس وقت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ہدایات جاری کی تھیں کہ این پی آر کے پروجیکٹ کو اس کے منطقی اختتام یعنی این آرسی کی ترتیب وتدوین تک پہونچادیا جائے، اتنا ہی نہیں ۲۰۱۴ء کے بعد حکومت ایک سے زائد مرتبہ پارلیمنٹ میں بیان دے چکی ہے کہ این پی آر کے ذریعہ ہر فرد کی شہریت کا تعین کرکے اسی پر مبنی این آرسی کی تشکیل کی جائے گی، نومبر ۲۰۱۴ء میں ریاستی وزیر داخلہ کرن رجیو نے ایک سوال کے جواب میں راجیہ سبھا کو بتایا تھا کہ این پی آر ملک میں عمومی طور پر مقیم لوگوں کی شہریت کی تصدیق کے زاویہ سے این آرسی کی جانب پہلا قدم ہے۔
ویسے ملک میں ۱۸۷۲ء کے بعد سے ہر دس سال کے دوران مردم شماری کا سلسلہ جاری ہے، جس کے ذریعہ ہاؤزنگ کنڈیشن ، سہولتوں اور اثاثوں، آبادی، مذہب، درج فہرست ذاتوں،درج فہرست قبیلوں، زبان، خواندگی، تعلیم، اقتصادی سرگرمی، نقل مکانی اور تولیدی کیفیت سمیت مختلف النوع کسوٹیوں اور پیمانوں کے سلسلہ میں بنیادی بہت چھوٹی سطح کے اعدادوشمار دستیاب ہوجاتے ہیں، آزادی کے بعد حالیہ آٹھویں مردم شماری ہوگی، جبکہ برطانوی دور اقتدار میں بھی ۸ مرتبہ مردم شماری کی گئی تھی، مردم شماری سے متعلق قانون ۱۹۴۸ء اور مردم شماری سے متعلق قواعد ۱۹۹۰ء مردم شماری کے عمل کی انجام دہی کے لیے قانونی فریم ورک فراہم کرتے ہیں، قومی آبادی رجسٹر(NPR) ۲۰۱۰ء میں شہریت سے متعلق قانون ۱۹۵۵ء اور شہریت سے متعلق قواعد ۲۰۰۳ء کے مطابق تیار کیا گیا تھا، جسے بعد کو ۲۰۱۵ء میں آدھار کو بنیاد بنا کر تازہ کاری کے عمل سے گزارا گیا تھا۔
حالیہ این آرسی کے تعلق سے بعض حلقوں کی جانب سے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ این پی آر کے بعد آدھار کارڈ اور پین کارڈ،نیز پاسپورٹ وغیرہ کی کوئی ویلیو باقی نہیں رہے گی، اور این پی آر کے رجسٹر میں جس کا نام ہوگا اسے ایک کارڈ دیا جائے گا اور وہی ملک کا شہری مانا جائے گا، این پی آر کے ذریعہ حکومت پورے ملک کے عوام کا ڈیٹا حاصل کرکے جسے چاہے گی شہریت دے گی، اور جسے چاہے خارج کردے گی، اسی طرح یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ این پی آر کے تحت لوگوں سے انگلیوں اور آنکھوں کے نشانات لیے جائیں گے، نیز کام، تعلیم، اسکول، ڈگری، شادی، بچے، پیدائش، گھر،مال ودولت اور پراپرٹی وغیرہ کی تفصیلات طلب کی جائیں گی، ظاہر یہ سب این آر سی ہی کی بدلی شکل ہے۔
لائحہ عمل
اخیر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ این آرسی کے اس خطرناک منصوبے کے خلاف اہلیان ہند کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے،جسے اپنا کر پورے ملک کو تباہی سے بچایاجاسکتا ہے، ملک کو این آر سی کے فتنے سے بچانے اور فسطائی طاقتوں کے منصوبوں کو خاک میں ملانے کے لیے دو طرح کا لائحہ عمل ضروری ہے: (۱) وقتی اور عارضی لائحہ عمل، جسے فوری عملی جامہ پہنایا جاسکے۔ (۲) طویل مدتی لائحہ عمل۔جہاں تک وقتی علی الفور اپنائے جانے والے لائحہ عمل کا تعلق ہے تو اس کے درج ذیل نکات ہیں:
۱- اخیر وقت تک احتجاج جاری رکھنا: جمہوریت میں احتجاج جہاں ایک مؤثر طریقہ کار ہے وہیں عوام کا دستوری حق بھی ہے، احتجاج ظلم کے خلاف مؤثر آواز ہے، جب کبھی انسانی سماج میں ظالموں نے ظلم ڈھایا احتجاج کے ذریعہ انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا گیا، تاریخ انسانی اس پر شاہد ہے، احتجاج ایک مذہبی فریضہ بھی ہے، دنیا کا کوئی مذہب ظلم پر خاموشی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا، جس طرح ظلم ڈھانا مذموم ہے، اسی طرح ظلم سہنا اور ظلم کے خلاف احتجاج نہ کرنا بھی جرم ہے، رسول اللہﷺ نے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کو نہ صرف درست قرار دیابلکہ اسے افضل ترین جہاد قرار دیا، قرآن مجید میں برائی اور شر کے چرچہ سے منع کیا گیا ہے، لیکن مظلوم کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، اور اسے اس کی اجازت دی گئی کہ وہ کھلے عام اس کااظہار کرے، احتجاج نہ صرف مذہبی حق ہے بلکہ یہ انسانی فریضہ بھی ہے، ہر زمانہ میں عوامی احتجاج نے اپنا اثر دکھایا ہے، این آر سی کے مسئلہ میں حالیہ احتجاج ہی کو لیجئے کہ اس کے اثرات سارے ملک میں محسوس کئے جارہے ہیں، آر ایس ایس کے حلقوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے، حکمرانوں کا لب ولہجہ بالکل بدل گیا ہے، حالیہ احتجاج کا عالمی اثر یہ ہوا کہ جاپان کے وزیر اعظم نے گوہاٹی میں طے مودی سے ملاقات کو منسوخ کردیا، اور بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے بھی اپنا دورۂ ہند منسوخ کرڈالا، نیز بین الاقوامی کمیشن برائے انصاف نے اس بل کو ناانصافی قرار دے کر صاف کہہ دیا کہ ہندوستان میں مذہبی آزادی کو کچلاجارہا ہے، علاوہ ازیں حقوق انسانی کے عالمی کمیشن نے بھی یہ کہہ کر اپنا رد عمل ظاہر کیا کہ ہندوستان میں مذہبی تفریق کی جارہی ہے، فرانس، اسرائیل، امریکہ اور انگلینڈ جیسے ملکوں نے اپنے شہریوں کو ہندوستان کا سفر کرنے میں احتیاط برتنے کی تاکید کی ، آسام میں بعض بی جے پی لیڈروں نے استعفیٰ دے دیا۔
اس وقت ملک بھر میں خوب احتجاج ہورہا ہے، البتہ احتجاج میں چند باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے:
۱- احتجاج پر امن ہو۔(۲) احتجاج میں ملک کے تمام طبقات شامل ہوں۔(۳) دورانِ احتجاج آر ایس ایس کے غنڈوں کی شرارتوں سے چوکنا رہیں، بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ احتجاج کو ناکام کرنے کے لیے اپنے شرارتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں، پر امن احتجاج میں گھس کر تشدد برپا کیا جارہا ہے، تاکہ احتجاج بدنام ہوجائے، نیز یہ تأثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ احتجاج صرف مسلمان کررہے ہیں، جب کہ سارا ملک اُٹھ کھڑا ہے۔(۴)احتجاج کو مؤثربنانے کے لیے ضرورت ہے کہ ملکی سطح کی ایک رابطہ کمیٹی قائم کی جائے، جس میں تمام طبقات کے نمائندے شامل ہوں، رابطہ کمیٹی ملک بھر کا دورہ کرکے تمام طبقات کے مذہبی، سیاسی وسماجی شخصیات کو احتجاج میں شامل کرنے کی کوشش کرے، ہر طبقہ کی نمائندہ شخصیات کو آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنی عوام کو زیادہ سے زیادہ سڑکوں پر لانے کا اہتمام کریں۔(۵)احتجاج اس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک این آرسی اور سی اے اے واپس نہ لیا جائے۔(۶) جمعہ کے دن ا حتجاج سے گریز کیا جائے۔(۷) احتجاج میں زیادہ سے زیادہ دلت افراد اور علاقہ کی سیکولر پارٹیوں کے لیڈروں کو شامل کیا جائے۔(۸) احتجاج میں شامل مسلمانوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنی مذہبی شناخت کو مخفی رکھیں؛ تاکہ لوگوں کو یہ تأثر نہ ملے کہ صرف مسلمان ہی احتجاج کررہے ہیں۔(۹) احتجاج میں ترنگا ضرور ساتھ رکھا جائے اور دورانِ احتجاج نعرہ تکبیر یا اسلامی نعروں سے گریز کرتے ہوئے ملک و دستور کی حفاظت کے نعرے لگائے جائیں۔(۱۰) ہر احتجاج میں کچھ ایسے رضا کار تشکیل دئے جائیں جو فسادیوں پر نگاہ رکھیں، نیز دورانِ احتجاج پولیس کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھا جائے۔
اس طرح کا احتجاج ہر ہر شہر اور قصبے میں ہونا چاہیے، بی جے پی نے این آر سی کے خلاف جاری احتجاج کو ناکام کرنے، نیز این آر سی کے حق میں فضا ہموار کرنے کے لیے ۲۵۰ پریس کانفرنس اور ہزاروں کی تعداد میں این آرسی کے حق میں ریالیاں نکالنے کا منصوبہ بنایا ہے، ملک کے تین کروڑ خاندانوں کو سی اے اے سمجھانے کے لیے بی جے پی عملی منصوبہ بنا چکی ہے، اس کے لیے ریالیوں اور کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، بی جے پی اسے ہندومسلم کا رنگ دینا چاہتی ہے، اس لیے اہلیان ہند کو چاہیے کہ پھونک پھونک کر قدم رکھیں۔
۲- حکومتی حربوں سے آگاہی: فوری لائحہ عمل کا ایک حصہ یہ ہے کہ سارے اہلیان ہند حکومتی حربوں سے چوکنا رہیں، جو این آر سی کے خلاف موجودہ لہر کو ختم کرنے کے لیے حکومت اپنا رہی ہے، مثلا حکومت ملک کے تعلیمی اداروں سے منسلک بعض شخصیات، نیز بعض ایمان فروش وکیلوں کے ذریعہ عوام کو یہ باور کرارہی ہے کہ این آر سی اور سی اے اے ہندوستانی آئین کے عین مطابق ہے،اور اس سے کسی بھی طبقے کو نقصان نہیں پہونچے گا، حتی کہ مسلمانوں میں دہلی کی جامع مسجد کے امام کے ذریعہ بھی اس قسم کی باتیں کہلوائی گئیں، دی ہندواورٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق قریب ۱۰۰ ہزار ماہرین اور وکلاء نے دہلی میں این آرسی کی تائید میں ریلی نکالی ہے، ایسے تمام ایمان فروش افراد سے باخبر رہنا ضروری ہے، نیز ان کے خلاف حقائق پروپیگنڈے سے عوام کو آگاہ رکھنا بھی ضروری ہے کہ کہیں عوام ان کی جال میں نہ پھنس جائے، ملک کی بعض نیوز چینل عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ایک سروے بھی پیش کررہی ہے جس میں کہا جارہا ہے کہ بل کی حمایت میں ۵۶ فیصد اور مخالفت میں محض ۳۴ فیصد افراد ہیں، جو کہ سراسر غلط ہے، بی جے پی اور آر ایس ایس نے سوشیل میڈیا پر باقاعدہ ایک ٹیم لگارکھی ہے جس کے افراد این آر سی کی تائید میں وضاحتی مضامین شائع کرکے انہیں خوب شیئر کررہے ہیں، ضرورت ہے کہ بل کی مخالفت اور احتجاج کو مؤثر بنانے کے لیے سوشیل میڈیا کا بھر پور استعمال کیا جائے، اور ان تمام مضامین کا جواب دیا جائے جو بل کی تائید میں شیئر کئے جارہے ہیں، موجودہ حالات میں عام طور پر سوشیل میڈیا پر ہر قسم کی جھوٹی خبریں پھیلائی جارہی ہیں، جھوٹ اور دجل کے ذریعہ حقائق کو بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے، ایسے میں انصاف پسند اہلیان ہندکا ایک میڈیا ہاؤس ہونا چاہیے جس کے تحت سچی اور تحقیقی خبریں ہی نشر کی جائیں۔
۳- عدالتی مہم : فوری لائحہ عمل کا ایک حصہ عدالتی مہم ہے، این آر سی کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر دوراں ہے، عدالت نے این آر سی کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر سماعت کی تاریخ کو عوام کا رد عمل جانچنے کے لیے مؤخر کیا ہے، جس میں عدالت عظمیٰ یہ دیکھے گی کہ اس بل کے خلاف کتنی تعداد میں درخواستیں دائر کی گئی ہیں، بی جے پی کارکنان نے یہ طریقۂ کار اپنایا ہے کہ مشہور تعلیم گاہوں کے نامور افراد عہدے داران بشمول وکیلوں کے ذریعہ سپریم کورٹ میں ایک بڑی تعداد میں اس بل کی حمایت میں عرضی داخل کی جائیں، مسلمانوں اور ملک کے تمام باشندوں کو چاہیے کہ وہ بھی زیادہ سے زیادہ این آر سی کے خلاف عرضیاں داخل کریں، اسی طرح اطلاعات سے معلوم ہوا کہ حکومت نے طے کیا ہے کہ اس قانون کی حمایت میں وزیر اعظم کو ایک کروڑ خطوط لکھوا کر ارسال کئے جائیں، تاکہ وزیر اعظم کسی ریلی میں یہ کہہ سکیں کہ اس قانون کی ہندوستان کی بیشتر عوام نے حمایت کی ہے، مخالفت کرنے والے بہت تھوڑے ہیں، حکومت کی اس سازش کو ناکام کرنے کے لیے ہمیں بھی چاہیے کہ اس قانون کی مخالفت میں ہم وزیر اعظم اور صدر جمہوریہ کے نام خطوط لکھیں، اور ان خطوط کو میڈیا پر بھی وائرل کریں، اسی طرح صوبائی حکومت کے وزیر اعلیٰ کو بھی خط لکھاجائے کہ وہ صوبہ میں این آرسی کو نافذ نہ ہونے دیں، تیسرا خط چیف آف جسٹس انڈیا کو بھی لکھا جائے جس میں ان سے بصداحترام اپیل کی جائے کہ وہ اس قانون کو کالعدم قرار دیں۔
پولیس کی جانب سے یوپی وغیرہ میں جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں اس تعلق سے بھی ذمہ داری نبھانا ضروری ہے، وکلاء کی ایک ایسی جماعت ہو جو مظلوم مسلمانوں اور دیگر برادران وطن کے لیے مفت مقدمہ لڑے اور ان کی رہنمائی کرے، نیز جو مسلمان شہید ہوئے ہیں ان کے پسماندگان کا تعاون کرنا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے، اسی طرح سوشیل میڈیا پر پولیس اہلکاروں کے ظلم وبربریت کے جتنے ویڈیوز وائرل ہورہے ہیں انہیں محفوظ کرلیا جائے تاکہ عدالت میں پیش کئے جاسکیں۔
جہاں تک طویل مدتی منصوبہ کی بات ہے تو اس حوالہ سے ضروری ہے کہ امت ِمسلمہ اپنی اصلاح پر توجہ دے، رجوع الی اللہ کے لیے اجتماعی کوششیں تیز کی جائیں،نیز یہ حالات سال دو سال کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ آر ایس ایس کی قریب ایک صدی طویل محنتوں کا نتیجہ ہیں، اس دوران اس نے ملک کے برادران وطن کو اسلام اور مسلمانوں سے متنفرکیا۔ اور اسلام دشمنی کی بنیاد پر انہیں متحد کیا ،یہ در اصل اسلام اور کفر کی لڑ ائی ہے، آر ایس ایس اسلام کی بنیاد پر ملک میں این آرسی لانا چاہتی ہے، اور ملک سے اسلام کا صفایا کرنا چاہتی ہے،اس کا حل یہ ہے کہ مسلمان اپنے اعمال واخلاق کو درست کرتے ہوئے برادران وطن کو اسلام سے قریب کرنے کی کوشش کریں، اور ہندوستان میں برادران وطن کے ہر طبقہ کو اسلام سے متعارف کرانے کی مستقل مہم چلائیں،یہ طویل المدت منصوبہ ہے، وقتی احتجاج مسئلہ کا مستقل حل نہیںہوسکتابلکہ غیر مسلموں میں دعوت دین کے ساتھ مسلمانوں کو اسلامی اخلاق وکردار کا ترجمان بننے کے لیے ہمہ جہت جدوجہد مسئلہ کا حل ہے۔
Email: [email protected]