ایوان اسمبلی ‘ سیاسی اکھاڑہ نہیں

   

تلنگانہ اسمبلی کا بجٹ سشن چل رہا ہے ۔ حکومت اس سشن میں جہاںبجٹ پیشکرے گی وہیں دوسرے امور کو بھی ایوان میںپیش کرتے ہوئے پایہ تکمیل کو پہونچانے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ ہر بار جب اسمبلی کا کوئی بھی سشن ہوتا ہے تو حکومت اپنی جانب سے ایجنڈہ تیار کرتے ہوئے اس کو آگے بڑھانے کا منصوبہ بناتی ہے ۔ اس کیلئے حکمت عملی تیار کی جاتی ہے اور اپنے ارکان کو ایوان میں موجود رہنے کی ہدایت دیتی ہے ۔ اسی طرح اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی حکومت کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی تیار کی جاتی ہے ۔ حکومت کی ناکامیوں اور اس کے فیصلوں کو موضوع بحث بناتے ہوئے ایوان میں حکومت کوگھیرنے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ جمہوری عمل کا حصہ ہے ۔ حکومت کو اپنا موقف پیش کرنے کا جہاں مکمل اختیار حاصل ہے وہیں حکومت کو نشانہ بنانے کا بھی اپوزیشن کو مکمل اختیار حاصل ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے کام کاج میں نقائص اور ناکامیوں کو ایوان کے ذریعہ ریاست کے عوام میں اجاگر کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ جمہوری عمل کا حصہ ہے اور اسی کے تحت ہمارا سیاسی نظام بھی کام کرتا ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ بی آر ایس کی جانب سے اسمبلی کو سیاسی اکھاڑہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ حکومت سے اختلاف کرنا اور اس کی ناکامیوں کو اجاگر ضرور کرنا چاہئے لیکن ایوان کے تقدس اور اسپیکر کے وقار کو برقرار رکھنا بھی حکومت اوراپوزیشن دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ جس طرح سے کل اسپیکر اسمبلی کے خلاف بی آر ایس کے رکن جگدیش ریڈی نے ریمارکس کئے ہیںوہ افسوسناک ہیں اور ان کی مذمت کی جا رہی ہے ۔ ریاست بھر میںاس کے خلاف احتجاج بھی کیا جا رہا ہے ۔ اسپیکر کے خلاف جو ریمارکس کئے گئے ہیں اس کی بنیاد پر جگدیش ریڈی کو سارے بجٹ سشن کیلئے اسمبلی سے معطل کردیا گیا ہے ۔ خود بی آر ایس کے سربراہ کے چندر شیکھر راؤ نے اپنے وسیع سیاسی تجربہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے جگدیش ریڈی کے اسپیکر کے خلاف ریمارکس کو پسند نہیں کیا تھا اور انہوں نے بھی ایوان کی کارروائی کو پرسکون انداز میں چلانے کی وکالت کی تھی ۔
کے سی آر کے اس موقف کے برخلاف آج ریاست میں مختلف مقامات پر بی آر ایس قائدین اور کارکنوں نے احتجاج کیا تھا اور جگدیش ریڈی کی معطلی پر تنقید کی تھی ۔ یہاں کے سی آر کے موقف اور بی آر ایس قائدین و کارکنوں کے موقف میں بھی تضاد نظر آتا ہے ۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے تاہم جہاں تک ایوان میں کام کاج کا مسئلہ ہے تو اس پر تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے ارکان کو اس معاملے میں ایک رائے ہونے کی ضرورت ہے ۔ ایوان اسمبلی نہ صرف برسر اقتدار ارکان کا حق ہے اور نہ ہی صرف اپوزیشن اس پر اپنا ادعا کرسکتی ہے ۔ ایوان میں ہر رکن کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ کسی کی ذمہ داری کچھ ہے تو کسی کی ذمہ داری کچھ اور ہے ۔ ہر ایک کو اپنی اپنی ذمہ داری کی تکمیل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ یقینی طور پر اگر حکومت کے کام کاج میں نقائص اور ناکامیاں ہیں تو اپوزیشن جماعتیں انہیں اجاگر کرسکتی ہیں اور ایوان میں ان کو پیش کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کیا جاسکتا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے ایوان کے تقدس کو متاثر نہیں کیا جانا چاہئے اور نہ ہی اسپیکر کے عہدہ کے وقار کو مجروح کیا جانا چاہئے ۔ کسی کے خلاف بھی شخصی ریمارکس نہیں کئے جانے چاہئیں۔ یہ ہماری سیاسی روایات کا حصہ ہرگز نہیں ہے ۔ جمہوری عمل کو مستحکم اگر کرنا ہے تو سبھی کو اس معاملے میں اپنی اپنی ذمہ داری نبھانے کیلئے آگے آنا چاہئے ۔ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے بے شمار مواقع دستیاب ہوتے ہیں ۔ اسمبلی اور دستوری عہدوں کو کو اس معاملے سے دور رکھا جانا چاہئے ۔
ایسا نہیں ہے کہ اسمبلی میں کسی رکن کو پہلی مرتبہ معطل کیا گیا ہے ۔ پہلے بھی ایسا ہوا ہے اور تقریبا ہر جماعت کے ارکان اسمبلی کو اس صورتحال کا کبھی نہ کبھی سامنا کرنا پڑا ہے ۔ تاہم جہاں کہیں ارکان نے اشتعال انگیزی کا شکار ہو کر کوئی غلط ریمارک یا تبصرہ کیا ہے تو انہوں نے اس پر معذرت خواہی کی ہے اور اپنے ریمارکس سے دستبرداری اختیار کی ہے ۔ کہیں اگر حکومت سے کوئی زیادتی ہوئی ہے تو حکومت نے بھی اپنی غلطی کو سدھارا ہے ۔ ایسے میں سیاسی اختلاف کے معاملے کو طول دینے کی بجائے ایوان کی کارروائی کو پرسکون انداز میںچلانے کیلئے سبھی کو اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے اور ایوان کے وقار اور تقدس کو بحال رکھا جانا چاہئے ۔