لکھنو۔کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ (اے ائی ایم پی ایل بی)کی حمایت والے ایودھیاتنازعہ کے مسلم فریق کی جانب سے پیش کی جانے والی نظر ثانی کی درخواست کا اہم سوال ”کسی دوسرے فرد کی جائیداد پر کس طرح ایک ’غیرقانونی طریقے سے رکھی گئی“ مورتی ایک دیوتا ہوسکتی ہے؟
۔سپریم کورٹ کی جانب سے 9نومبر کے روز سنائے گئے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست ڈسمبر کے پہلے ہفتہ کے دوران داخل کی جائے گی۔
کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنونیر ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی نے ٹی او ائی کو بتایا کہ”رام للا کی مورتی‘ جس کی بابری مسجد سے متصل چبوترے پر 1885سے پوجا کی جاتی تھی‘ اس کو ہندورسومات اور روایت کے مطابق ایک دیوتا کا موقف اختیار کرلیاتھا‘ ہم نے اس سے کبھی مقابلہ نہیں کیا“۔
انہوں نے کہاکہ ”تاہم جب سے مورتی غیر قانونی طریقے سے مسجد کے مرکز گنبد کے اندر رکھی گئی‘ جس کے متعلق سپریم کورٹ نے بھی مانا ہے‘ وہ کسی دوسرے کی جائیداد میں رکھی ہوئے ایک مورتی میں تبدیل ہوگئی“۔
رام للاکی مورتی بابری مسجد کے اندر 22-23ڈسمبر کی درمیانی رات میں رکھی گئی تھی‘ یہ وہ حرکت ہے جس کو سپریم کورٹ نے اپنے 9نومبر کے فیصلہ میں غیر قانونی قراردیا ہے۔
جیلانی نے کہاکہ ”مذکورہ مورتی کو اپنی جائیداد کے لئے 1885سے 1949تک رام چبوترے کے مقام کے لئے قانونی جدوجہد کا حق حاصل ہے“۔
سال1949کی ایف ائی آر میں کہاگیا ہے کہ مورتی جبری طور پر رکھی گئی ہے۔جیلانی نے استفسار کیاکہ”سپریم کورٹ نے اس بات کو بھی تسلیم کیاہے کہ مسجد چھوڑی نہیں گئی تھی اور مسلمانو ں نے 1857سے1949تک وہاں پر نمازاد اکی۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہاکہ مورتی غیرقانونی اور زبردستی سے مسجد کے اندر1949میں رکھی گئی ہے۔ جب مورتی رکھنے کے عمل کو غیر قانونی کہاگیا ہے تو کیا ایک مورتی دیوتا بن سکتی ہے؟“
۔مسلم فریق جو فی الحال نظر ثانی کی درخواست تیار کررہا ہے نے کہاکہ اب تک کی قانونی کاروائی میں یہ نکتہ ہمارے چھورہا ہے۔ جیلانی نے مزیدکہاکہ اسی نکتہ کی بنیاد پر نظرثانی کی درخواست پیش کی جائے گی