’’ایودھیا فیصلہ کی شام ہم نے شراب پی ‘ دعوت اڑائی ‘‘

,

   

سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کا اپنی کتاب میں خلاصہ

نئی دہلی : سابق چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی نے حال ہی میں شائع اپنی کتاب میں اپنے فیصلوں اور اس سے مربوط کئی واقعات کا خلاصہ کیا ہے ۔ اپنی کتاب میں ایودھیا فیصلہ سے متعلق انہوں نے یہ خلاصہ کیا کہ ایودھیا کا تاریخی فیصلہ سنانے کا بعد اُس شام بنچ کے ججس کے ساتھ انہوں نے تاج مان سنگھ ہوٹل میں چینیز فوڈ کھایا اور دستیاب بہترین شراب پی۔ ایک ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ ایودھیا تنازعہ کے فیصلہ پر جشن منانا مناسب تھا جس پر انہوں نے کہا کہ یہ جشن نہیں تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ بنچ کے ہر جج نے ایودھیا فیصلہ کیلئے تقریباً 4 ماہ تک بہت کام کیا تھا ۔ تمام ججس نے اس فیصلہ کیلئے سخت محنت کی جس کے بعد ہم نے وقفہ لیا ۔ جسٹس رنجن گوگوئی کی سوانح حیات ’’ جسٹس فار دی جج‘‘ کے ضمن میں یہ انٹرویو کیا گیا تھا ۔انہوں نے دیگر فیصلوں کا بھی تذکرہ کیا۔ مقدمہ کی سماعت کے بعد بنچ نے احکامات جاری کرتے ہوئے میڈیا سے کہا کہ وہ رپورٹنگ کے ضمن میں چوکس رہیں ۔ یہ حکم میڈیا کیلئے ایک مشورہ کی طرح تھا کہ وہ رپورٹنگ کے سلسلہ میں محتاط رہیں ۔ جسٹس رنجن گوگوئی نے اپنی کتاب میں مزید تحریر کیا کہ کوئی غیرمرئی طاقت تھی جس کی رہنمائی سے اس اہم ترین کیس (ایودھیا) کا فیصلہ ممکن ہوپایا ۔ واضح رہے کہ /9 نومبر 2019 ء کو سپریم کورٹ کی 5 رکنی دستوری بنچ نے ایودھیا تنازعہ کے تعلق سے فیصلہ سنایا تھا ۔ جسٹس گوگوئی کی کتاب میں جس طرح سے ایودھیا مسئلہ کا فیصلہ سنانے کے بعد شراب نوشی اور دعوت اڑانے کا تذکرہ کیا ہے اس پر تنازعہ پیدا ہوا ہے اور کئی گوشوں سے تنقیدیں بھی کی جارہی ہیں ۔ سوشیل میڈیا پر ان کے ان ریمارکس کو کتاب میں شائع شدہ تصویر کے ساتھ پیش کرتے ہوئے تنقید کی جارہی ہے اور سوال کیا جارہا ہے کیا انہیں اس اقدام پر فخر ہے ؟ راجیہ سبھا میں ان کے متنازعہ داخلے سے متعلق اپنی سوانح میں جسٹس گوگوئی نے تحریر کیا کہ راجیہ سبھا کی رکنیت کو قبول کرنے سے قبل انہوں نے اس پر دوسری مرتبہ غور تک نہیں کیا ۔ راجیہ سبھا کی رکنیت قبول کرنے سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس پیشکش کو اس لئے قبول کیا کیونکہ وہ عدلیہ اور اپنی آبائی ریاست آسام کے مسائل کو اجاگر کرنا چاہتے تھے ۔ حالانکہ رنجن گوگوئی نے اپنی ریاست کے مسائل اٹھانے کیلئے راجیہ سبھا کی رکنیت قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن ریکارڈس کے مشاہدہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی ایوان میں حاضری 10 فیصد سے بھی کم رہی ہے ۔ ریکارڈ کے جائزہ سے ان کے دعویٰ کی حقیقت آشکار ہوجاتی ہے ۔ عدالت کی اسٹاف رکن خاتون نے ان پر جنسی ہراسانی کے الزامات بھی عائد کئے تھے ۔ اس کیس کی سماعت بھی جسٹس گوگوئی نے کسی دوسرے جج کو سونپنے کے بجائے خود ہی کی تھی ۔