حیدرآباد۔کئی دہوں سے زیر التوا ء بابری مسجد اور رام جنم بھومی کیس پر آخر کار سپریم کورٹ نے ہفتہ کے روز اپنا فیصلہ سنادیا ہے۔سپریم کورٹ کی پانچ ججوں پر مشتمل دستوری بنچ جس کی نگرانی 17نومبر کو ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کررہے تھے‘
نے اپنے فیصلے میں شہادت بابری مسجد پر بھی افسوس کا اظہار کیامگر آثارقدیمہ کی جانب سے کی گئی کھدوائی سے برآمد شواہد کو بھی قابل قدر مانا۔
سپریم کورٹ کی مذکورہ بنچ نے کہاکہ آثارقدیمہ کے شواہد غلط نہیں ہوسکتے اور اس بات کا یقین ہے کہ مسجد کی جو تعمیرکی گئی تھی وہ خالی مقام پر نہیں کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت دی کہ اس کی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو مندر ٹرسٹ کے طور پر کام کرے گی اورمتنازعہ مقام پر ایک عالیشان مندر کی تعمیر بھی کرائی جائے‘
ٹھیک اسی طرح اس بات کی بھی ذمہ داری حکومت پر تفویض کی گئی کہ وہ پانچ ایکڑ اراضی مسجد کی تعمیرکے لئے فراہم کرے‘ مگر اس کے لئے جگہ اب تک کوئی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔
مسجد کی تعمیر کی بھی ذمہ داری حکومت پر عائد کی گئی ہے۔
درایں اثناء سپریم کورٹ کے فیصلے پر بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے وکیل ظفر یاب جیلانی نے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہاکہ ہمارا نظریہ عدالت سمجھنے سے قاصر رہا ہے‘
حالانکہ عدالت نے بابری مسجد کی شہادت پر برہمی کا اظہار کیا مگر فیصلہ مخالف فریق کے حق میں دیا‘ جس کو ہم تسلیم تو کرتے ہیں مگر جو لوگ جس پر جشن منارہے ہیں ان کو ہم روک نہیں سکتے۔
انہوں نے کہاکہ جشن منانے والے لوگ پہلے بھی جشن مناتے رہے ہیں‘ جبکہ وزیراعظم نریندرمودی نے خود کہاہے کہ ”یہ کسی کی جیت یاکسی کی شکست نہیں ہے“ ایک زیر التواء فیصلہ ہے جس کی تکمیل ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہم پہلے بھی مسلمانوں سے اپیل کرتے آرہے ہیں کہ فیصلہ کسی جیت یا شکست نہیں بلکہ ایک عدالتی فیصلہ ہے۔
درایں اثناء ایک ٹیلی ویثرن چیانل پر مباحثہ کے دوران ممتاز قانون داں محمود پرچہ نے سوال اٹھایاکہ آیا یہ فیصلہ دیگر متنازعہ مقامات کے لئے مثال تو نہیں بنے گا‘ یا پھر کوئی سیاسی جماعت اس فیصلے کو سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش تو نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کا واضح کردینا چاہئے تھاکہ اس کو دیگر متنازعہ مقامات کے مقدمات میں مثال کے طور پر پیش نہ کرے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کو اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنے کا موقع فراہم کرے۔