ایک جانب سنی وقف بورڈ پر اس زمین کو قبول نہ کرنے کے لیے دباؤ پڑ رہا ہے تو دوسری جانب یہ بحث بھی گرم ہے کہ زمین کہاں ملے گی۔ اس معاملے میں مسلم برادری اور مختلف مسلم تنظیموں کے درمیان اختلاف بھی نظر آرہا ہے۔سنی وقف بورڈ نے فیصلہ سنائے جانے کے بعد ہی اسے قبول کرنے اور آگے فیصلے کو چیلنج نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس اعلان کی مسلمانوں کے کئی مذہبی رہنماؤں نے حمایت بھی کی جبکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ 17 نومبر کو لکھنؤ میں ایک اجلاس کرنے جا رہا ہے۔ اجلاس میں اس بات پر غور کیا جائے گا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر آگے کوئی قدم اٹھانا ہے یا نہیں۔
بورڈ کے ممبر اور وکیل ظفریاب جیلانی کہتے ہیں ’مسلمانوں نے سپریم کورٹ سے کسی اور جگہ زمین کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ ہم تو متنازع زمین پر مسجد واپس مانگ رہے تھے۔ اگر ہم نے فیصلے پر نظر ثانی کی پیٹیشن دائر کی تو اس میں یہ نکتہ بھی شامل ہوگا۔
مسلمان تنظیمیں اس بات پر بھی غور کر رہی ہیں کہ سنی وقف بورڈ کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے ہونے والی زمین کی پیشکش کو قبول کرنا چاہیے یا نہیں۔اس بحث کا آغاز مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی نے کیا جس کی متعدد لوگ حمایت کر رہے ہیں۔
اویسی نے صاف طور پر اسے خیرات کا نام دیتے ہوئے کہا ’انڈیا کے مسلمان اتنی اہلیت رکھتے ہیں کہ وہ خود زمین خرید کر مسجد بنا سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ سنی وقف بورڈ کو اس تجویز کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔‘سنی وقف بورڈ کے چیئرمین ظفر فاروقی اویسی کی بات کو قبول کرتے نظر نہیں آ رہے لیکن حتمی فیصلہ وقف بورڈ کے اجلاس کے بعد کیا جائے گا۔
ظفر فاروقی نے بی بی سی کو بتایا ’ہم بورڈ کا جلد از جلد اجلاس بلا رہے ہیں اور اس اجلاس میں طے کریں گے کہ سپریم کورٹ کی یہ پیشکش قبول کریں یا نہیں۔ اگر بورڈ اس زمین کو قبول کرتا ہے تو اس کے بعد ہی طے ہو گا کہ اس پانچ ایکڑ زمین پر مسجد بنے گی یا کچھ اور۔‘
انھوں نے مزید کہا ’زمین کہاں دی جائے گی یہ وفاقی اور ریاستی حکومتوں کو مل کر طے کرنا ہے۔ ہم کسی خاص جگہ زمین دیے جانے کا مطالبہ نہیں کریں گے لیکن اگر حکومت چاہے تو متنازع مقام کے ارد گرد 67 ایکڑ کے دائرے میں حکومتی اختیار والی زمین میں سے ہی ہمیں زمین دے سکتی ہے۔‘ یاد رہے کہ سنہ 1991 میں حکومت نے متنازع مقام سمیت اس کے ارد گرد 67 ایکڑ زمین کا بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا
مسلم برادری میں یہ بھی موضوع بحث ہے کہ پانچ ایکڑ زمین آخر ملے گی کہاں کیوںکہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ واضح نہیں ہے۔ دوسری جانب چند ہندو تنظیمیں ابھی بھی اس بات پر ڈٹی ہوئی ہیں کہ ایودھیا کے اندر مسجد کے لیے زمیں بالکل نہیں دی جانے دی جائے گی۔
ایک ہندو تنظیم کے اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا ’چودہ کوس کے باہر ہی کوئی زمین دی جا سکتی ہے۔ اگر حکومت ایودھیا میں رام جنم بھومی کے آس پاس زمین دینے کی کوشش کرے گی تو ہندو تنظیمیں اس کے خلاف سڑکوں پر بھی اتر سکتی ہیں۔‘
ان کا خیال ہے کہ حکومتی اختیار والی زمین میں سے مسجد کے لیے زمین دینے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، ایسا کرنے سے مستقبل میں نتازعات پیدا ہونے کا خطرہ رہے گا۔ لیکن ایودھیا کے چند مسلمان نوجوانوں سے بات کر کے یہی لگا کہ وہ فیصلے سے خوش تو نہیں لیکن اگر حکومت کی جانب سے حاصل کیے جانے والے علاقے کے اندر زمین مل گئی تو شاید فیصلے پر ان کا دکھ کچھ کم ہو جائے۔
ایودھیا میں ہی رہنے والے ببلو خان نے کہا ’سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے، انصاف نہیں کیا۔ ہم اب اس بارے میں کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں لیکن اگر اسی علاقے میں زمین ملتی ہے تو مسجد دوبارہ بنائی جا سکتی ہے۔‘
متعدد افراد کا یہی مطالبہ ہے کہ مسلمانوں کو زمین 67 ایکڑ کے علاقے کے اندر ملنی چاہیے۔ جسے وفاقی حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ اس درمیان اس بارے میں بھی غور کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کو حکومت کی جانب سے ملنے والی زمین پر مسجد ہی بنانی چاہیے یا کچھ اور؟
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سنی وقف بورڈ کو زمین لے لینی چاہیے لیکن وہاں مسجد کے بجائے کوئی ہسپتال یا تعلیمی ادارہ بنوانا چاہیے جسکا سبھی کو فائدہ ملے۔ مسلمانوں کے مذہبی رہنما اشرف عثمانی کہتے ہیں ’مسجد جب ایک بار کسی زمین پر بن گئی تو وہ تاقیامت مسجد ہی رہے گی۔ چاہے اس میں کوئی اور عمارت ہی کیوں نہ بن جائے۔ ہم اس لیے اپنی بات پر ڈٹے تھے۔ اب مسجد ہی نہیں رہی تو وہاں چاہے جو بنے، کیا فرق پڑتا ہے۔‘
ایک مؤقف یہ بھی ہے کہ حکومت مسجد بنانے کے لیے ایودھیا کے اندر کسی بھی جگہ زمین دے سکتی ہے۔ چند ہندو رہنما پانچ کوس یا چودہ کوس کے دائرے کے اندر زمین دینے کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن حکومت کو شاید اس لیے مشکل نہ ہو کیوںکہ اب ایودھیا کا دائرہ بھی بہت بڑھ چکا ہے ۔ماضی میں ایودھیا محض ایک قصبہ تھا لیکن اب ضلع فیض آباد کا نام ہی ایودھیا ہو گیا ہے